حضرت نے فرمایا ممکن ہے پاؤں کو کیچڑ لگے اس دروازہ پر پاؤں دھولیں گے کہ حرم شریف نہ ہو اس سے قبل مجھے مکہ کی کیچڑ اور بارش کا کبھی منظر دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا نیچے اتر کر سڑک پر آئے تو زمین پاؤں کو پکڑے لیتی تھی ہر قدم پر میری تمنا ہوتی تھی کہ کاش حضرت رخصت پر عمل فرمادیں اور سمجھتا تھا کہ حضرت بھی اس تکلیف کو برداشت نہ کرسکیں گے مگر ہر قدم حضرت کا مجھ سے آگے رہا،ہر ایک کے سرپر چھتری جدا تھی اور میرے ہاتھ میں لالٹین تو حضرت کے ہاتھ میں پانی کا بھرا لوٹابازار ختم ہوا تو سڑک پر تادیوارِ مسجد الحرام پچیس ،تیس فٹ کا دریا بہہ رہا تھا اور اس زور سے پانی چل رہا تھا کہ دیکھ کر ڈر معلوم ہوتا تھا ،یہاں حضرت ٹہرے اور میں سمجھا کہ اب واپسی کا حکم فرمائیں گے مگر حضرت بولے چھتریاں تو اب بند کرلو اور پائنچے لو چڑھا ،جوتے لے لو بغل میں اور ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال لوکہ سنا ہے رَو میں پتھریاں آتی ہیں اور گر جانے کا ڈر رہتا ہے وہ پیارا منظر بھی اب تک نظر کے سامنے ہے کہ بر ہنہ پا گھٹنوں تک پائینچے چڑھائے قینچی کی طرح باہم ہاتھ ملائے چھتریاں بازو پر لٹکائے چلے اور بسم اﷲ مجریہا کہہ رَو میں قدم ڈال دئے چونکہ نشیب کا رخ تھا اس لئے چھوٹی بڑی کنکریاں پانی کے ساتھ بہتی ہوئی اس زور سے آتی تھیں جیسے مٹھائیاں بھر کر کوئی گولیاں مارتا ہے آگے بڑھے تو گٹھنوں تک پانی آگیا اور قریب تھا کہ میرا پاؤں پھسلے مگر حضرت نے بازو تھام رکھا تھا کہ گرنے نہ دیا اور خدا خدا کرکے باب الصفا پر چڑھے وہاں پہنچ کر پہلی سیڑھی پر اول پاؤں دھوئے اور پورب کی الماری میں جوتے رکھے اسکے بعد بسم اﷲ اللّھم افتح لی ابواب رحمتک پڑھ کر حضرت نے مسجد میں قدم رکھا اور میں حضرت کا اتباع کرتا رہا۔
(تذکرۃ الخلیل: ۳۷۱۔۳۷۲)
حضرت مولانا کی زندگی میں اس طرح کے واقعات بکثرت پیش آتے کہ آپ نے رخصت کے بجائے عزیمت پر عمل کیا اور کسی وقت کسی سخت سے سخت موسم میں بھی عزیمت سے پہلو تہی نہیں کی آپ جب حج کو تشریف لے گئے تو گرمی کے موسم میں ایک بار مکہ مکرمہ میں قیام کیا سخت گرمی تھی لُو چل رہی تھی ،پہاڑ تپ رہے تھے ،لوگ مجبور ہوکر طائف جارہے تھے کہ گرمی اور لُو برداشت کے باہر تھی ،آپ سے آپ کے مطوّف اور رفقاء نے عرض کیا کہ آپ بھی چند دنوں کے لئے طائف جو ٹھنڈا مقام ہے تشریف لے چلئے مگر آپ نے ارشاد فرمایا۔
’’بھئی ہندوستان چھوڑ کر تو مسجدالحرام ہی کی طرف آئے ہیں اس کو چھوڑ کر طائف جائیں تو ہندوستان ہی چھوڑنا کیا ضرور تھا سیر کیلئے تو وہاں بھی شملہ و منصوری موجود ہے ہم تو کہیں جاتے نہیں دکھم سکھم گذر ہی جائے گی۔‘‘
حق گوئی:
اظہار حق اور جرأت و بے باکی حضرت مولانا کا خاص شیوہ تھا ،اور آپ نے زندگی کے ہر دور میں اس سے کام لیا گذشتہ اوراق میں آپ کی زندگی کے جو حالات بیان کئے گئے ہیں آپ نے پڑھا ہے کہ جہاں بھی تشریف لے گئے اور جب بھی اظہار حق کا کوئی موقع آیا تو آپ نے ایک لمحہ بھی سکوت اختیار نہیں کیا ،بھاولور تشریف لے گئے تو اہل اثر سے لے کر اہل علم تک کسی کے سامنے بھی اظہار حق سے پہلو تہی نہیں کی غرضیکہ ہر جگہ آپ نے حق گوئی سے کام لیا بھاولپور کا مشہور مناظرہ ،بریلی میں اہل بدعت سے