مندرجہ بالا واقعات نمونے کے طور پر ناظرین کے سامنے پیش کئے گئے ورنہ ان واقعات کی تفصیل جو پیش خدمت کئے گئے ہیں یا جن کا ذکر نہیں کیا گیا اتنی زیادہ ہے کہ اسکے لئے ایک الگ دفتر درکار ہے اور کچھ واقعات آپ گذشتہ مختلف بابوں میں پڑھ چکے ہیں۔
استغناء:
حضرت مولانا میں استغناء اور قناعت کی صفت بہت زیادہ تھی اس سلسلے کے بھی بعض واقعات گذشتہ اوراق میں آپ کی نظر سے گذر چکے ہیں ،مثال کے طور پر ایک دو واقعات اور پیش کئے جاتے ہیں۔
’’بمبئی میں حج کو جاتے وقت ایک سیٹھ صاحب نے آپ کی خدمت میں سوروپیہ ملازم کے ہاتھ بھیجے کہ مجھے حاضری کی فرصت نہیں اس لئے روپیہ آدمی کے ساتھ بھیجتا ہوں قبول فرماویں آپ نے واپس فرما دیا کہ بحمداﷲ مجھے ضرورت نہیں آخر وہ خود آیا اور معذرت کی تب آپ نے قبول کیا۔(آپ بیتی :۶/۲۳۰)
حضرت شیخ الحدیث فرماتے ہیں کہ :
’’میرے حضرت نور اﷲ مرقدہٗ کا معمول حجاز میں چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ہدیہ قبول فرمانے کا نہیں تھا اول تو ہدیہ دینے والے پر اصرار کرتے کہ یہاں کے لوگ ہدیہ کے زیادہ مستحق ہیں مجھے اﷲ تعالیٰ نے ضرورت سے زائد دے رکھا ہے اگر اس پر بھی کوئی شدید اصرار کرتا تو قبول فرماکر دس روپے سے زائد کی رقم تو اہل حرمین سے کسی کو دیدیتے معلم اور اس کے بچوں کو بھی حضرت قدس سرہٗ نے علاوہ ان کے حقوق لازمہ کے بڑی بڑی رقمیں جو کہیں سے آئی ہوئی تھیں اسی طرح دوسرے اکابر اور مشائخ کو بہت جلد مرحمت فرما دیتے تھے اپنے پاس نہیں رکھتے تھے اور دس روپیہ سے کم کا ہدیہ ہوتا تو وہ اسی وقت اس ناکارہ کے حوالے ہوجاتاکہ یہاں کے دوکانداروں سے کوئی چیز خرید لاؤں یہ ناکارہ اکثر انگور یا اس قسم کی چیزیں خرید کر لے آتا جو مجمع کے ساتھ حضرت بھی نوش فرماتے اور خدام کے مزے تو ہوتے ہی۔(ایضا:۲۳۳)
حضرت مولانا کے استغنیٰ اور قناعت کا حال یہ تھا کہ بڑے سے بڑے امیر سے جس کا تعلق بھی ہوتا تھا آپ صر ف نظر رکھتے اور صرف دینی فائدہ کی خاطر اس سے ملتے اور اس کے ہدیہ کو قبول کرتے حتیٰ کہ وہ حضرات جو بیعت ہوتے اور کچھ ہدیہ پیش کرتے تو آپ اس وقت اس کو قبول نہ فرماتے حضرت شیخ ارشاد فرماتے ہیں:
’’بیعت کرنے پر حضرت کی خدمت میں اگر نذر پیش کی گئی تو حضرت نے کبھی قبول نہیں فرمائی کہ صورتاً یہ توبہ کرانے کا معاوضہ بن جاتا ہے اور اس رسم کے مشابہ ہے جو آج کل دنیا دار پیروں میں چل رہی ہے ہاں اس کے بعد انس و محبت کا تعلق پیدا ہوکر اگر کوئی قلیل سے قلیل ہدیہ بھی پیش کرتا تو مسنون طریقہ پر آپ اسے بخوشی قبول فرماتے۔
(آپ بیتی :۶/۲۲۲)
تواضع و انکساری: