میں نہ بھولا ہوں نہ بھولوں گا مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کی زیارت اور اس صدر مدرس مولانا خلیل احمد کی ملاقات (مولانا خلیل احمد)جس سے زیادہ سختی سے انصاف پر کاربند اور مشائخ و صوفیہ اور ان کی رسم و روایات کے بارے میں تعصب کوسوںدور ہندوستان کے چوٹی کے علماء میں میں نے کسی کو نہیں دیکھا دراصل یہ ان کے اخلاص قوت ایمانی اور نور بصیرت کا نتیجہ ہے۔
(رحلت الامام محمد رشید ریاض ۲۹۔تالیف الدکتوریوسف البش(بیروت)
آئندہ سطور میں مندرجہ بالا صفات و کمالات کی تفصیل مشاہدات و واقعات کی صورت میں ہدیہ ناظرین کی جاتی ہے۔
آفاقہا گردیدہ ام ،مہرتباں دزد یدہ ام
بساریاں خوباں دیدہ ام لیکن تو چیزے دیگرے
مقبولیت و محبوبیت:
اﷲ تعالیٰ نے حضرت مولانا کو محبوبیت و مقبولیت ایسی عطافرمائی تھی کہ ہر کس و ناکس کا دل آپ کی طرف کھنچتا تھا،عوام کو تو آپ سے تعلق تھا ہی اس لئے کہ آپ میں شفقت و رحمت،خوش کلامی ،صلہ رحمی اور سادگی و خاکساری ایسی تھی کہ غریب سے غریب اور کم علم سے کم علم آدمی کو بھی آپ سے وحشت تو درکنار بیحد محبت اور ادب و احترام تھا طبقہ علماء میں سبھی کا حال یہ تھا کہ وہ آپ سے محبت رکھتے اور ان کے دل آپ کی طرف کھنچتے،حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی جو حضرت حاجی امداد اﷲصاحب کے مجاز تھے اور بہت سے امور میں خاص مزاج اور طریقہ کار رکھتے تھے وہ آپ سے تعلق اور نجذاب کا ذکر اس طرح فرماتے ہیں:
’’احقر کو بعض امور اجتہادیہ ،ذوقیہ ،متعلقیہ ،معاشرت وانتظام میں رائے کا اختلاف تھا اور اس اختلاف کے ہوتے ہوئے میرا یہ خیال تھا کہ مجھ کو مولانا سے صرف اعتقاد عقلی ہوسکتا ہے انجذاب طبعی نہ ہوگا ،مگر کیفیت یہ تھی کہ حاضری تو حاضری ،تصور کرنے سے اس قدر انجذاب ہوتا تھا کہ میری سمجھ نہ آتا تھا اور غالباً اسی کا اثر ہوگا کہ خواب میں بھی کبھی زیارت ہوتی تو اسی شان سے ہوتی یہ کھلی دلیل ہے محبوبیت کی کہ محب کو گمان بھی نہیں بلکہ احتمال عدم کا ہے طبیعت ہے کہ کھنچی چلی جاتی ہے اور میں اس کو اﷲ تعالیٰ کا فضل اور رحمت اپنے اوپر سمجھتا ہوں کہ اس اختلاف کے ضرر سے مجھ کو محفوظ رکھا۔‘‘(خوان خلیل:۲۰)
نور ہی نور:
حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب مہاجر مکی م۱۳۱۷ھ کے ایک خلیفہ و مجاز صاحب جذب اور صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے،انکا نام مولانا محب الدین تھا،وہ مکہ مکرمہ میں رہتے تھے،وہ جب بھی کسی کے متعلق کچھ فرمادیتے تھے،وہ صحیح ہوتا تھا،حضرت مولانا جب ۱۳۲۸ھ میں حج کے لئے تشریف لے گئے تو آپ کے ساتھ مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی بھی تھے ،انکا بیان ہے:
’’جس وقت (حضرت مولانا خلیل احمد صاحب)مسجد الحرام میں طواف قدوم کے لئے تشریف لائے تو احقر مولانا محب الدین صاحب کے پاس بیٹھا تھا،مولانا اس وقت درود شریف کی کتاب کھولے ہوئے اپنا ورد پڑھ رہے تھے کہ دفعۃً میری طرف مخاطب ہوکر فرمانے لگے ،اس وقت حرم میں کون آگیا کہ دفعۃً سارا حرم انوار سے بھر گیا ،میں خاموش رہا کہ اتنے میں حضرت طواف سے فارغ ہوکر باب