ختم نبوت کے متعلق آپ کی رائے اور اپنے مشائخ کے عقیدہ کااظہار:
حضرت مولانا کا دور بعض حیثیتوں سے بڑا نازک اور انتشار پراگندگی کا دور تھا زوال حکومت کے بعد مختلف باطل فرقوں کازور اور غیر اسلامی عقیدوںکی شہرت کادور تھا ایک طرف مشرکین اپنا زور دکھارہے تھے دوسرے طرف بدعتی اپنے عقیدوں کو خالص اسلامی قرار دے کر عام کررہے تھے تیسری طرف قادیانیت ختم نبوت کے خلاف صف آرا ہورہی تھی، بدعتی حضرات اہل حق علماء پر طرح طرح کے الزامات لگارہے تھے جو سر تا پا غلط تھے ان میں حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتوی کی تحذیر الناس کی ایک عبارت سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ مولانا ختم نبوت کے قائل نہیں ہیں بلکہ قادیانیت کے ہم نوا ہیں حضرت مولانا خلیل احمدصاحب نے اس غلط خیال کی تردید کی اور کھل کر قادیانیت کے خلاف کام کیا مناظرے کیے اور اپنی تحریر وتقریر سے اس فتنہ کی آگ کو بجھانے کی کوشش کی اہل بدعت کے اعتراض کا جواب دیا اور حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی عبارت کی تشریح کی آپ نے اس طرح کے ایک سوال کا جواب دے کر اپنے اور اپنے مشایخ کی عقیدہ، مسلک اور احساسات وخیالات کی اس طرح وضاحت کی:
’’ہمارا اورہمارے مشایخ کا عقیدہ یہ ہے کہ ہمارے سردارو آقا اور پیارے شفیع محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں جیساکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین لیکن محمد اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور یہی ثابت ہے بکثرت حدیثوں سے جو معنی حد تواتر تک پہنچ گئیں اور نیز اجماع امت سے سوحاشاہم میں سے کوئی اس کے خلاف کہے کیونکہ جو اس کا منکر ہے وہ ہمارے نزدیک کافر ہے اس لیے کہ منکر ہے نص صریح قطعی کا ہاں ہمارے شیخ ومولانا مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے دقت نظر سے عجیب دقیق مضمون بیان فرماکر آپ کی خاتمیت کو کامل وتام ظاہر فرمایا ہے جو کچھ مولانا نے اپنے رسالہ تحذیرالناس میں بیان فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ خاتمیت ایک جنس ہے جس کے تحت میں دو نوع داخل ہیں ایک خاتمیت باعتبار زمانہ وہ یہ کہ آپ کی نبوت کا زمانہ تمام انبیاء کی نبوت کے زمانہ سے متاخر ہے اور بحیثیت زمانہ سب کی نبوت کے خاتم ہیں اور دوسری نوع خاتمیت باعتبار ذات جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی نبوت جس پر تمام انبیاء کی نبوت ختم ومنتہی ہوئی اور جیساکہ خاتم النبیین ہیں باعتبار زمانہ اسی طرح آپ خاتم النبیین ہیں بالذات، کیونکہ ہر وہ شے جو بالعرض ہو ختم ہوجاتی ہے اس پر جو بالذات ہو اس سے آگے سلسلہ نہیں چلتا اور جبکہ آپ کی نبوت بالذات ہے اور تمام انبیاء علیہم السلام کی بالعرض اس لیے کہ سارے انبیاء کی نبوت آپ ہی کی نبوت کے واسطے سے ہے اور آپ ہی فرد اکمل اور یگانہ اور دائرہ رسالت ونبوت کے مرکز اور عقدنبوت کے واسطہ ہیں پس آپ خاتم النبیین ہوئے ذاتا بھی زمانا بھی اور آپ کی خاتمیت صرف زمانہ کے اعتبار سے نہیں ہے اس لیے کہ یہ کوئی بڑی فضیلت نہیں ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابقین کے زمانہ سے پیچھے ہے بلکہ کامل سرداری اور غایت رفعت اور انتہاء درجہ کاشرف وفضل اسی وقت ثابت ہوگا جبکہ آپ کی خاتمیت ذات وزمانہ دونوں اعتبار سے ہو ورنہ محض زمانہ کے اعتبار سے خاتم الانبیاء ہونے سے آپ کی سیادت ورفعت نہ مرتبہ کمال کو پہنچے گی اورنہ آپ کو جامعیت وفضل اورعظمت کے بیان میں مولانا کا مکاشفہ