سالک کے لئے دو چیزیں مضر ہیں:
فرمایا’’سالک کے لئے دو چیزیں سخت مضر ہیں،بدعت کے ساتھ تعلق اور نعمت آلہیہ کا کفر ان اﷲ والوں سے لپٹا رہے اگر ان کی محبت دل میں ہو گی انشاء اﷲ کبھی خاتمہ خراب نہ ہوگا اور دل میں اگر اﷲ والوں سے بغض ہوا تو خاتمہ خراب ہونے کا بہت اندیشہ ہے اس لئے کچھ بھی نہ کرے تو محض دخول سلسلہ بھی نفع سے خالی نہیں۔‘‘
اتباع سنّت میں قرب الٰہی مضمر ہے:
فرمایا’’شان حضور اور اتباع سنت میں جتنی ترقی ہوگی اسی قدر قرب آلہی بڑھے گا اور برکت ہوگی۔‘‘
اﷲکے احسانات کا شکر:
فرمایا’’قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ،وَاِنْ تَعُدُّ وَانِعْمَۃَ اﷲِ لاَتُحْصُوْھَا ، اگر تم اﷲ تعالیٰ کے احسانات کو شمار کرو تو ان کا احصار نہیں کرسکتے،یہاں نعمت کو مفرد استعمال کیا گیا کیونکہ ایک نعمت میں بے شمار نعمتیں ہیں۔‘‘
نماز میں لقمہ:
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مدظلہٗ تحریر فرماتے ہیں:
’’حضرت کے پیچھے دس بارہ حفاظ قرآن سنتے تھے ایک مرتبہ میں اپنی مسجد میں تراویح ختم کرکے آیا تو معلوم ہوا کہ حضرت کی مسجد میں تراویح ہورہی ہے میں نماز میں شریک ہوگیا چنانچہ حضرت نے نماز میں سورۃ طلاق کی آیت یاایّھا النبی النح شروع فرمائی میں نے لقمہ دیا یَاایُّھَاالّذین آمنُواتو حفاظ نے تصحیح کی نماز ختم کرنے کے بعد حضرت نے دریافت فرمایا کہ تم نے اس طرح لقمہ کیوں دیا میں نے عرض کیا کہ اسوقت میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ آگے کے سارے صیغے جمع کے ہیں،حضرت نے فرمایا کہ کہیں اس میں بھی اجتہاد کیا جاتا ہے۔‘‘
شیخ کی نیابت اس کے خلفاء کرتے ہیں:
جب حضرت مولانا ہجرت فرمانے لگے تو حافظ فخر الدین صاحب نے عرض کیاکہ حضرت کے اس مبارک ارادہ ہجرت سے خدام پریشان ہیں اور دریافت کرتے ہیں کہ ہم کیا کریں آپ نے ارشاد فرمایا:
’’پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں ،عادۃاﷲ اسی طرح جاری ہے اور سلسلہ اسی طرح چلتا رہا ہے کہ جب کوئی شیخ وصال کرتا ہے تو اس کے خلف کام کرتے ہیں اور ان سے مخلوق ہدایت و فیضان حاصل کیا کرتی ہے پس میرے لوگوں کو چاہئے کہ میرے خلفاء میں سے جس کی طرف چاہیں رجوع کریں اور اپنا کام کرتے رہیں میں اگر ہندوستان ہی میں رہتا تو کب تک زندہ رہتا۔‘‘
اچھا ہے جس نے دیا اسی کے کام آئے:
حضرت مولانا کے انتہائی مجاہدہ پر خدام عرض کرتے کہ کچھ آرام فرمالیا کریں اور دماغ سے اتنا کام نہ لیں تو فرماتے :