ہے جو اس وقت نایاب ہے۔(تذکرۃ الخلیل:۱۱۶)
حضرت مولانا نے جب یہ کتاب مکمل کی تو بطور شکر و اطمینان کے اس عبارت پر کتاب پوری کی۔
’’اللھم لا احصی ثنائً علیک انت کما اثنیت علی نفسک‘‘
اور یہ سب حضرت مخدوم دامت برکاتہم کی برکات دعوات اور توجہات کا تحصیل ہے ورنہ ؎
کہاں میں اور کہاں یہ نگہت گل
نسیم صبح تیری مہربانی
اسی زمانہ میں بھاولپور میں ایک شیخ طریقت مولانا غلام فرید صاحب چشتی تھے جنھوں نے حضرت مولانا کی کتاب کے آخر میںجو تقریظ مکمل وہ یہ ہے۔
’’یہ کتاب جو مولوی صاحب فاضل کامل مولوی خلیل احمد صاحب نے رد فرقہ ضالہ مضلہ شیعہ ،رافضیہ میں تصنیف فرمائی ہے نہایت مضامین عالیہ سے مملو ہے اور مطابق ملت قدسیہ اہل سنت و جماعت کے ہے میں بعد مطالعہ اس کتاب کے تصدیق کرتا ہوں کہ جوجو مولوی صاحب نے لکھا ہے فی الاصل صحیح اور درست ہے والسلام علی من الھدیٰ
خاکپائے فقراغلام فرید چشتی حنفی عفی عنہ
اس تقریظ کے علاوہ کئی اور تقریظیں ہیں جن میں کچھ نثر میں ہیں اور کچھ طویل نظم میں اور کچھ رباعیات میںنیز تاریخ تکمیل کتاب بھی مختلف نکالی گئی ہیں جواس کی زینت ہیں جن کو طوالت کے خوف سے چھوڑاجاتا ہے۔
3المطرقۃ الکرامۃ علی سراۃ الامۃ
حضرت مولانا ۱۳۰۶ھ تک دو سال بریلی میں مدرسہ مصباح العلوم میں پڑھاتے رہے آپ جس وقت بریلی میں تھے اس وقت تک دو اہم کتابیں لکھ چکے تھے (۱)بدعت و شرک کے خلاف ’’البراہین القاطعہ‘‘(۲)تشیع ور فض کے خلاف ’’ہدایات الرشید‘‘دونوں کتابیں قیام بھاولپور کے دوران تصنیف کی تھیں اسی کے بعد بریلی میں قیام کیا دونوں علوم و فنون میں آپ کی اتنی دستگاہ حاصل ہوگئی تھی کہ اب مزید کسی کتاب کے مطالعہ او ردلائل وبراہین کے جمع کرنے میں کوئی دشواری لاحق نہیں ہوتی تھی،کتب شیعہ گویا حفظ تھیں ،دونوں فریق آپ سے بحث کرنے اور الجھنے سے گھبراتے تھے اور دامن بچاتے تھے آپ اہل بدعت کے مرکزمیں تھے اس وقت بریلی میں مولانا احمد رضا خاں صاحب کا مضبوط مرکز تھا اور ان کے شاگرد و متبعین پھیلے ہوئے تھے اور براہین قاطعہ کا چرچہ تھا مگر کسی نے آکر آپ سے اس بارہ میں نہ کوئی سوال کیا نہ گفتگو۔
حضرت مولانا جب بریلی میں تشریف رکھتے تھے اسی زمانہ میں،مطرقۃ الکرامۃ علی مراۃ الامامہ لکھنی شروع کی اس کتاب کی پہلی جلد جو ۱۴۳ صفحات پر مشتمل تھی طبع ہوئی دوسری جلد مکمل نہ ہوسکی اس کتاب کی وجہ تالیف کیا تھی؟وہ مولانا عاشق الٰہی صاحب