بدنام کرنا ہے ان کا کوئی علاج نہیں ،ان جوابات کے بعد ان پر جن علمائے ہند نے تصدیق کی ہے ان میں ،شیخ الہند مولانا محمود حسن ،مولانا احمد حسن صاحب امروہی ،مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ،مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری ،مولانا حبیب الرحمٰن صاحب نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند،مولانا مفتی کفایت اﷲ ،مفتی عزیز الرحمٰن صاحب کے نام قابل ذکر ہیں۔
ان جوابات کو جب علمائے حرمین اور علمائے مصروشام نے پڑھا حرف بحرف ان کی تصدیق کی اور اپنی مہر تصدیق ثبت کی فجز اھم اﷲ احسن الجزاء۔
5تنشیط الآذان فی تحقیق محل الاذان
علمائے بریلی اور علمائے دیوبند کے درمیان اور مسائل کی طرح جمعہ کی اذان ثانی کے موقع و محل کے بارے میں بھی اختلاف رہا علمائے بریلی اس مسلک کے حامل و داعی ہیں کہ جمعہ کی دوسری اذان مسجد کے باہر ہونی چاہئے اور اس بارہ میں بھی وہ بہت شدت اختیار کئے ہوئے ہیں اب سے ۵۰ سال پہلے یہ مسئلہ اٹھا اور شدت کے ساتھ اٹھا حضرت مولانا اور ان کے مشائخ حق اس کے قائل ہیں کہ اذان ثانی ممبر کے قریب ہونی چاہئے اور یہی مسنون ہے جب یہ اختلاف ہوا فریق مکالف کی طرف سے شدید اختلاف ہوا اور پھر اختلاف سے مخالفت کی نوبت آئی تو آپ نے قلم اٹھایا اور ’’تنشیط الاذان‘‘کے نام سے ایک مختصر ہی کتاب جو ۳۲ صفحہ پر مشتمل ہے تحریر فرمائی ،اس کتاب میں آپ نے آیات قرآنیہ ،احادیث نبویہ اور روایات فقہیہ نیز اجماع و تعامل سلف سے ثابت کیا کہ مسجد کے اندر ہی جمعہ کی اذان ثانی کا ہونا صحیح اور افضل ہے ۔اس کتاب کے شروع میں مولانا عاشق الٰہی صاحب کی حسب ذیل تحریر مطبوعہ ہے۔
’’الحمد ﷲ والصلٰوۃ والسلام علی نبیہ وصفیہ امابعد شروع میں جب اذان خطبہ کا چرچہ ہوا کہ مسجد میں ہونا بدعۃ و مکروہ تحریمی ہے تو حضرت عمدۃ الفقہا مولانا الحاج المولوی خلیل احمد صدر المرسلین مدرسہ عریبیہ مظاہر علوم سہارن پور دامت برکاتہم کی خدمت میں احباب و متوسلین کے ادھر ادھر سے متعدد خطوط آئے کہ اس مسئلے پر کافی بحث ہونی چاہئے مگر حضرت مولانا دام فضلہم نے اس کو قابل اہتمام نہ سمجھا اور جواب لکھوادیا کہ اس قسم کے مسائل جزئیہ میں کنج و کاؤمناسب نہیں کہ خواہ مخواہ کا فتنہ ہے آخر چا ر طرف اس کا شور بڑھتا رہا اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ جگہ جگہ فساد و تکرار ہونے لگا استفتاء پر استفتا آنا شروع ہوگئے کہ مسئلے کا حکم شرعی مدلل معلوم ہونا چاہئے تب ضررورت ہوئی کہ مسئلہ اذان فی المسجد کی تنقیح کی جائے اور یہ امر متوارث شرقاً و غرباً اور عرباً و عجما شائع ہے مدلل وموجہ بسیط کے ساتھ تحریر کیا جائے ہر چند کے رامپور و کانپور وغیرہ سے اس کے متعلق فتاویٰ شائع ہوچکے ہیں مگر مختصر ہونے کی وجہ سے طالبین کی سیری نہ ہوئی اس لئے حضرت مولانا ممدوح زید مجد ہم نے توجہ فرمائی اور آیات قرآنیہ ،و احادیث نبویہ ،و روایات فقیہہ اور اجماع و تعامل سے اس کا کافی ثبوت واضح فرمایا امید ہے کہ اہل حق و انصاف کے اطمینان قلب اور شفائے صدور کا وسیلہ ہوگا،حضرات مخالفین کی خدمت میں ادب کے ساتھ درخواست ہے کہ تہذیب و متانت انسان کا زیور ہے اور ہر مسلمان کو زیبا ہے کہ ادب کا پہلو کسی وقت بھی ہاتھ سے نہ چھوڑے اس لئے اگر جواب تحریر فرماویں تو سبُّ وشتم سے اجتناب فرماویں،ورنہ اندیشہ ہے کہ پھر ادھر سے بھی