’’دماغ سے کام ہی لینا کیا باقی ہے جو رعایت کروں اچھا ہے جس نے دیا ہے اسی کے کام آؤں۔‘‘
بیوی کو نصیحت:
وصال سے کچھ پہلے اپنی اہلیہ محترمہ سے ارشاد فرمایا:
’’مدینہ منورہ میں رہ کر یہاں کے مصائب و تکالیف پر اگر کوئی صبر کرے تو جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میں خاص طور پر اس کی شفاعت کروں گا۔‘‘
اشرف العلوم حدیث و فقہ ہیں:
فرمایا:’’اشرف العلوم حدیث اور فقہ ہیں کہ نجات کا مدار عمل پر ہے اور عمل کا مداران دو پر۔‘‘
حدیث دانی کی شرط:
فرمایا’’حدیث دانی محض الفاظ کے ترجمہ کا نام نہیں بلکہ اس کے لئے تمامی علوم و فنون کی مہارت کے بعد ایک وہبی حذاقت درکار ہے جس کو تفقہ کہتے ہیں اور اسی نعمت آلیہہ نے فقہ کو شرح حدیث بنا کر دریا ئے ناپیدا کنار بنادیا کہ صدہاضخیم کتابیں مدون ہوچکیں اور جب دیکھو اخلاف کے لئے اس کی ضرورت قائم۔‘‘
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کے متعلق ارشاد:
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب سے حضرت مولانا کو اولاد سے بڑھ کر محبت تھی کہ دیکھنے والے حضرات حضرت شیخ کو حضرت مولانا کا بیٹا ہی سمجھتے تھے چنانچہ ایک دفعہ کسی نے پوچھا بھی کہ حضرت یہ آپکے بیٹے ہیں؟فرمایا بیٹے سے بڑھ کر ،حضرت مولانا اکثر کھانے کے وقت شیخ کو بلالیتے شیخ عرض کرتے کہ حضرت میں تو کھا چکا مگر حضرت مولانا فرماتے کیا مضائقہ ہے تم تو طالبعلم ہو کباب تو چکھ لو اس کے لئے تو بھوک کی ضرورت نہیں اور یہ بھی فرماتے میاں زکریا!اتنے دنوں سے پاس بیٹھتے ہیں ان کو تو میٹھے کا شوق نہ ہوا مجھے نمکین کا ہوگیا ہاں بھئی زور اور قوت کی بات ہے۔‘‘(۱)
الٓمّ تنزیل اور سورۃ الدھر:
فرمایا’’جمعہ کے دن فجر کی نماز میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ الٓمّ تنزیل السجدہ اور سورۃ الدھر پڑھاکرتے تھے شافعیہ نے تو اس کا واجب کی طرح التزام کرلیا کہ کبھی ترک ہی نہیں کرتے اور حنفیہ نے تو اس کے ترک کا التزام کرلیا کہ کبھی نہیں پڑھتے دونوں فعل سنت کے خلاف ہیں،اولیٰ یہ ہے کہ جمعہ کے دن ان کو اکثر پڑھاجائے احیاناً ترک بھی کردے۔‘‘
میری نماز:
ایک بار فرمایا’’نماز پڑھتے ہوئے نہ مجھے شور و غل پر التفات ہوتا ہے نہ گانے بجانے پر ۔ البتہ اگر کوئی قرآن پڑھنے لگے تو منازعت ہونے لگتی ہے اور اس طرف التفات میں مضطر ہوجاتا ہوں۔‘‘