آدھ چمچمہ حضرت قدس سرہ بھی نوش فرمالیتے البتہ پلاؤ کبھی کبھی سحر میں حضرت کے یہاںپکائی جاتی تھی افطار میں کبھی نہیں پکائی جاتی تھی سحر میں تازی روٹی پکتی تھی چائے کا معمول تھا۔
صبح کی نماز اسفار میں پڑھنے کامعمول تھا نماز کے بعد تقریبا اشراق تک کواڑ بند کرکے ادوار کا معمول تھا اس میں مراقبہ بھی ہوتاتھا۔
اشراق کی نماز پڑھنے کے بعد ایک گھنٹہ آرام فرماتے اس کے بعد گرمی میں ایک بجے تک بذل لکھواتے اور سردی میں بارہ بجے تک ا س کے بعد ظہر کی اذان تک قیلولہ کامعمول تھا۔
ظہر کی نماز کے بعد تراویح کے پارہ کو ہمیشہ حافظ محمدحسین چڑاڑوی کو سنایا کرتے تھے کہ وہ اسی واسطے رمضان المبارک ہمیشہ یہاںکیا کرتے تھے کبھی کبھی ان کی غیبت میں اس سیہ کار کو بھی سننے کی نوبت آئی البتہ مدینہ پاک میںظہر کے بعد پارہ کاسننا اس ناکارہ کے متعلق تھا اور میرے سفرحجاز سے واپسی پر چونکہ بذل بھی ختم ہوگئی تھی اس لیے ظہر کی نماز کے بعد مستقل ایک پارہ اہلیہ محترمہ کو سنانے کادستور تھا اس پارہ کو جوظہر کے بعد سنانے کا معمول تھا مغرب کے بعد اوابین میں اور رات کو پڑھتے تھے۔
۳۳ھ کے سفرحجازسے پہلے عصر کے بعد میرے والدصاحب نوراللہ مرقدہ سے دور کا معمول تھا جواسی پارہ کا ہوتاتھا جو تراویح میں سناتے۔
وصال سے دو سال قبل کہ ان دوسالوں میں امراض کاجواضافہ ہوگیاتھا ان سے قبل میںنے کبھی آخری عشرہ کااعتکاف ترک فرماتے نہیں دیکھا اور دارالطلبہ بننے سے قبل مدرسہ قدیم کی مسجد میں کرتے تھے اور دارالطلبہ بننے کے بعد یعنی ۳۵ھ سے دارالطلبہ میں فرماتے تھے اور اس عشرہ میں بھی بذل کی تالیف ملتوی نہیں ہوتی تھی بلکہ مسجد کلثومیہ کی غربی جانب جو حجرہ ہے اس میں بیس تراویح کو تالیف سے متعلقہ سب کتابیں پہنچ جاتی تھیں جو صبح کی نماز کے بعد یہ ناکارہ اٹھاکر مسجد میں رکھ دیتا اور تالیف کے ختم پر پھر اسی حجرہ میں منتقل کردی جاتیں۔
رمضان میں ان دوسالوں کے علاوہ جن میں میرے والدصاحب کے ساتھ دور ہوا تسبیح ہاتھ میں ہوتی تھی اور زبان پر اور آہستہ آہستہ کوئی خادم بات دریافت کرتا تو اس کا جواب مرحمت فرمادیتے کچھ لوگ دس پندرہ کی مقدار میں کاندھلہ اور میرٹھ سے رمضان کا کچھ حصہ گزارنے کے لیے حضرت کے پاس آجایا کرتے تھے مگر اعتکاف نہیں کیا کرتے تھے۔‘‘ (اکابر کارمضان از صفحہ ۵ تا ۱۱)
یہ وہ معمولات تھے جن کو حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا صاحب نے تحریر فرمایا اب مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی حضرت مولانا کے معمولات رمضان کو اپنے الفاظ میں اس طرح پیش کرتے ہیں:
’’جب رمضان المبارک کا چاند نظر آتا جو نزول قرآن کا مہینہ ہے اور کثرت سے کلام اللہ کے لیے مخصوص ہے تب تو آپ کی جدوجہد کی کوئی حد نہ رہتی تھی۔ تراویح میں سوا پارہ سنانے کامعمول تھا،ہر رکوع پر رکوع فرماتے اور بیس رکوع روزانہ کے حساب سے ستائیسویں شب کو ختم فرمادیا کرتے تھے مظاہر علوم کی مدرسی کے بعد مدرسہ قدیم کی مسجد میں آپ کامعمول محراب سننانے کارہا اور دارالطلبہ بننے کے بعد دو سال دارالطلبہ کی مسجد میں قرآن سنایا دو سال وہاں کی مسجد میں محراب سنائی سننے والوں کاہجوم بہت زیادہ ہوتا اورمشتاق دور دور سے رمضان گزارنے آتے بلکہ بعض حفاظ اپنا سنانا بند کرکے اقتدا کرتے آپ متوسط جہر کے ساتھ نہایت ٹھہر ٹھہر کر