پڑھتے کہ ایک ایک حرف سمجھ میں آتا تھا چونکہ جوانی میں یاد کیاتھا نیز پڑھنے میں بھی استغراق ہوتا تھا اس لیے اٹکنے کی نوبت بھی آتی مگر غلط پڑھنے کی نوبت نہیں آتی تھی دفعۃ زبان رک جاتی یا متشابہ لگتا تو بتلانے والے جیساکہ رواج ہے جلدی سے بولتے اورکبھی غلط بھی بتادیتے تھے جس کوحضرت نہ لیتے اور خود سوچ کر یادوبارہ صحیح بتانے والے کے صحیح بتانے پرآگے چلتے تھے بایں ہمہ آپ پر کبھی ناگواری کااثر نہ ہوتابلکہ سلام پھیر کر تسلی کے طور پر فرمایا کرتے کہ آخر جب حافظ بھولتا ہے تو سامع کو بھی بھولناضرورہے اگر بھول کر کہیں بتادیا تو تعجب ہی کیا ہے محراب سنانے کا معمول حضرت کا ہمیشہ رہا مگرعمر شریف جب ستر سال کو پہنچ گئی تو محراب سنانے کاتحمل دشوارہوگیا اورحضرت فرمانے لگے کہ رکوع کرتاہوں تو خیال ہوتاہے کہ دوسری رکعت میں کھڑا نہ ہوسکوں گا مگر بہت ہمت کرکے کھڑاہوجاتا ہوں بیس رکعت ، اسی طرح پوری ہوتی ہیں کہ ہر رکعت میں گر جانے کااندیشہ رہتاہے اور سجدہ سے اٹھ کر کھڑا ہونا پہاڑ پر چڑھنے سے زیادہ مشکل معلوم ہوتاہے اس حال میں بھی آپ دوسال نبھاگئے اور ہمت نہ ہارے آخر میں جب قوت نے جواب ہی دے دیا تو محراب سنانا چھوٹ گیا مگر اس کے بدلے دوسرے سے سننے اور خالی اوقات میں خود تلاوت کرنے کاشغل بڑھ گیا۔(تذکرۃ الخلیل)
حضرت مولانا رمضان مبارک میں قرآن شریف سنانے یا پڑھنے میں اتنی زیادہ محنت فرماتے تھے کہ دماغ تھک جایا کرتا تلاوت کے ساتھ ساتھ دوسرے دماغی کام بھی کیا کرتے اور اس پر ضعیفی کاعالم، اس کو دیکھ کر حضرت مولانا سیداحمدمدنی اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نے مدینہ منورہ میں آخر رمضان کوعرض کیا کہ:
’’حضرت دماغ کی رعایت بہت ضروری ہے حضرت دماغ سے بہت کام لیتے ہیں مگرحضرت بے ساختہ فرماتے کہ اب اس سے کام ہی کیا لینا باقی ہے جو رعایت کروں ایک مرتبہ فرمایا کہ ضعف کی وجہ سے حافظے پر اثر پاتاہوں اس لیے مجھے ڈر ہے کہ کلام مجید نہ بھول جاؤں اس لیے اس کااہتمام کرتاہوں ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ دماغ چاہے جاوے یارہے مگر کلام مجید نہیں چھوٹتا۔‘‘(اکابرکارمضان:۱۵)
زندگی کے آخری رمضان میں جو آپ نے مدینہ پاک میں گزارا آپ کا معمول بڑا مشقت آمیز اور تھکادینے والاتھا، حضرت شیخ الحدیث صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’اس آخر رمضان کا توپوچھنا ہی کیا جو عمر شریف کاآخری رمضان تھا کہ غذا بھی سادہ چائے کاایک فنجان اور بہ مشکل آدھی چپاتی رہ گئی تھی تلاوت وسماعت کامجاہدہ بہت ہی بڑھ گیا تھا یعنی اول صبح کو سواپارہ حفظ سناتے اور ظہر سے عصر تک مسلسل تلاوت کبھی دیکھ کر کبھی حفظ فرماتے بعد مغرب اوابین میں سناتے پھر عشاء کی نماز حرم میں پڑھ کر مولانا سیداحمدصاحب کے مدرسہ میں تشریف لاتے اور قاری محمد توفیق صاحب مدرس تجوید کی اقتداء میں تراویح پڑھتے کہ نہایت اطمینان سے دوپارے پڑھتے جن میں عربی کے پانچ بچ جاتے جویہاںکے سوابارہ بجنے کا وقت ہے۔‘‘ (ایضا:۱۶)
مولاناعاشق الٰہی دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں۔
’’ماہ رمضان میں آپ کی تقللیل طعام زیادہ بڑھ جاتی تھی مگر معمولات میںکوئی فرق نہ آتا تھا نہ فتوی بند ہوتے تھے نہ خطوط کی آمد رکتی تھی اور نہ زائرین کی۔‘‘ ملاقات میں کمی آتی تھی ہاں مدرسہ کی تعطیل رہتی تھی اور درس کا وقت تلاوت کلام اللہ کی نذرہوجاتاتھا آپ افطار میں تعجیل فرمایا کرتے تھے اور سحر میں تاخیر۔‘‘(تذکرۃ الخلیل)