سکون واطمینان کے ساتھ کھڑے ہو کر لمبی لمبی آٹھ رکعتوں میں تلاوت قرآن کا اپنا معمول پورا کیا۔
حج کا مبارک سفر اور مِنیٰ کا قیام شغرفوں کی ایسی کثرت کہ راستہ چلنا مشکل مگر آپ کے معمول میں فرق نہ آیا دو شغرفوں کے بیچ میں تنگ جگہ میں کھڑے ہوئے قرآن مجید کے اس معمول کو جوآپ کو اپنی جان سے زیادہ عزیز تھا پورا کیا۔
جہاز چل رہاہے طوفان آیا ہوا ہے، جہاز ڈانواڈول ہے ہر شخص جہاز کی حرکت سے بیمار اور امتلاء واستفراغ میں مبتلا ایک لمحہ کے لئے کھڑا ہونا مشکل سے مشکل تر مگر آپ کے معمول میں ذرہ بھر فرق نہ آیا اپنے مولا کے سامنے کھڑے ہوکر گھنٹہ سوا گھنٹہ دو ڈھائی پارے پورے سکون کے ساتھ پورے کررہے ہیں۔ تلاوت قرآن کے معمول کا یہ حال تھا کہ تلاطم کی وجہ سے جب آپ کھڑے ہوہی نہیں سکتے تھے تو لیٹے لیٹے پارہ سوا پارہ ضرور پڑھ لیاکرتے تھے۔
اور ان واقعات میں سب سے موثر واقعہ وہ ہے جو آپ کی صاحبزادی کی وفات اور اس وقت آپ کی شب بیداری، تیمارداری اور اس پر تلاوت اور نماز کے معمول کے پورا کرنے کا ہے، اس واقعہ کو مولانا عاشق الٰہی صاحب تحریر کرتے ہیں:
’’آپ کی جوان لڑکی ہانی مرحومہ تپ دق میں مبتلا ہوئی اور جب اس کی زندگی سے یاس ہوئی تو آپ اس کو انبہٹہ لے گئے اوائل رمضان مدرسے کی چھٹیوں میں آپ وطن آئے تو اس کا پیمانہ حیات لبریز ہوا مرحومہ کی دنیوی زندگی کی سب سے آخری رات آئی۔ تو اس نے بھی محسوس کرلیا کہ آپ دن کی دھوپ یا شب کی چھاؤں، دیکھنا نصیب میں نہیں اس لیے مرحومہ نے باپ سے خواہش کی کہ ابّا آج آخری تکلیف اٹھالو اور یہ شب میرے پاس بیٹھ کے گزاردو کہ تمھارا چہرہ دیکھتی ہوئی رخصت ہوجاؤں مرحومہ کا محبوب شوہر مجنوں ہوچکا اور اسکے بقید حیات ہوتے ہوئے گویا مرجانے سے اس مرحومہ کے قلب پر ایسا صدمہ بیٹھا تھا کہ یہی بظاہر اس کے تپ کہنہ میں مبتلا ہونے کا سبب ہوا تھا، اس لئے حضرت کو اس لخت جگر کے ساتھ محبت بھی زیادہ تھی آپ کئی راتیں اس کی تیمارداری میں ایسی گزارچکے تھے کہ سونا برائے نام ملا تھا اور یہ تو وہ فیصلہ کن شب تھی جس کے متعلق حضرت بھی سمجھ چکے تھے کہ کل کا دن نور نظر کے مٹی میں چھپانے اور دفن وکفن میں مشغول ہونے کا ہے اس لئے ماں باپ دونوں اس کے پاس بیٹھ گئے نصف شب گزری تھی کہ سانس میں تغیر پیدا ہوگیا اور سکرات شروع ہوگئی، رات کا سناٹا تھا اور حضرت کے لئے یہ جاں گداز نظارہ یٰسین شریف پڑھتے تھے اور بیٹی پر دم کرتے جاتے اس حسرتناک منظر میں وہ وقت آگیا جس میں حضرت کا اپنے مولا کے سامنے حاضری دینے اور اس کے کلام پاک کے تین جزء اس کو سنانے کا معمول تھا اسلئے آپ یہ بیوی سے کہہ کر کہ تم ہانی کے سانس دیکھتی رہو میں چند نفلیں پڑھ لوںاٹھ کھڑے ہوئے اور وضو فرما کر اپنے شغل میں لگ گئے جس کے پچاس برسوں سے عادی تھے اس حالت میں بھی آپ محافظہء قرآن پاپ کی حالت مستمرہ سے غافل نہ رہے اور وہی تعداد پوری فرمائی جس کی عادت تھی۔ ہاں ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے اور اہل سے پوچھتے تھے کہ کیا حال ہے اور جب یہ جواب سنتے کہ ابھی سانس باقی ہیں تو پھر نیت باندھ لیتے اور تلاوت شروع فرمادیتے تھے آخر ادھر آپ کا معمول ختم ہوا اور ادھر مرحومہ کی سانس ختم ہوئی ۔‘‘
سلام پھیرنے پر جب آپ نے پوچھا کیا حال ہے تو جواب سنا کہ رخصت ہوگئی اور اللہ کو پیاری ہوئی تب آپ نے انا للہ پڑھ کر جنازہ کے سرہانے آبیٹھے اور اہل سے فرمایا ابھی تو وقت باقی ہے نفلیں پڑھناہوں پڑھ لو۔