تناول کرتے لیکن آخر زمانے میں جب ضعف واضمحلال بڑھ گیا اور دانت باقی نہ رہے تو اپنے گھر میں تنہا کھانا کھاتے اسکے باوجود اگر کوئی خاص مہمان آجاتا تو اس کے ہمراہ باہر کھانا کھاتے ، کھانے کے بعد گھنٹہ یا سوا گھنٹہ قیلولہ کرتے قیلولہ کے بعد وضو کرکے مکان ہی پر سنت ادا کرتے اور جماعت کے وقت سے دس منٹ پہلے مدرسہ میں تشریف لاکر اپنے حجرے کے قریب جو مسجد کے شمال جانب مدرسہ قدیم میں ہے نماز کے انتظار میں بیٹھے رہتے، مدرسہ قدیم کی مسجد میں ظہر کی نماز گرمیوں میں اولًا دوبجے پھر تین بجے ہوا کرتی تھی اور جاڑے میں اولاً ایک بجے اور پھر ڈیڑھ بجے ہوتی تھی اسی حساب سے آپ گھر سے تشریف لاتے اور جماعت میں شرکت فرماتے امامت عام طور پر دوسرے علماء کرتے تھے آپ مقتدی بن کر نماز ادا فرماتے بعد نماز ظہر درس میں مشغول ہوجاتے لیکن جب آپ آخر عمر میں درس کے کام سے فارغ ہوگئے تو ظہر کے بعد کا وقت تقریباً پون گھنٹہ تلاوت قرآن میں صرف ہوتا، تلاوت کے بعد ان خطوط کے جوابات لکھواتے جو صبح کے وقت آچکے ہوتے تھے ، جوابات کے بعد فتاویٰ لکھواتے ان کاموں میں عصر کا وقت آجاتاتھا تو آپ چار رکعتیں نوافل کی نماز پڑھتے، عموماً آپ کا وضو رہتا اس لئے عصر کے لئے نئے وضو کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔
نماز عصر کے بعد مجلس ہواکرتی تھی موسم کے حساب سے مجلس کی جگہ بدلتی تھی اگر گرمی کا موسم ہوتا تو مدرسہ کے صحن میں مجلس لگتی اور اگر سردی یا بارش ہوتی تو حجرہ کے سامنے سہ دری میں یہ مجلس ہوتی، آپ تشریف رکھتے اور خدام و متعلقین ، زائرین اور عقیدت کیش حضرات دور دور سے حاضر ہوکر شریک مجلس ہوتے تھے، آپ کے ہاتھ میں تسبیح ہوتی اور تسبیحات کا ورد جاری رہتا، بیچ بیچ میں آپ گفتگو فرماتے جس میں علمی باتیں، بے تکلف جملے اور آئے دن کے پیش آنے والے مسائل شامل رہتے، شرکاء مجلس میں علماء، فقہاء، طالبین سلوک، طلباء مدرسہ ، وکلاء ، تاجر اور ملازمت پیشہ حضرات سبھی ہوتے اور سوالات کے ذریعہ اپنے مسائل پیش کرتے غرض کہ یہ مجلس علمی ہونے کے ساتھ ساتھ پُر لطف اور پُرکیف بھی ہوتی تھی، اور ہر ایک کے تسلی و تشفی کا سامان اس میں ملتا تھا بہت سے لوگ تو صرف اس لئے حاضر ہوتے کہ آپکی نورانی صورت کو دیکھیں گے اور شیخ وقت کی مبارک مجلس میں بیٹھیں گے کہ یہ بھی نفع سے خالی نہیں ہے، لایشفی جلیسہم کے مصداق بن کر خدا کی رضا حاصل کریںگے۔
عصر کی اسی مجلس میں کوئی اخبار آتا تو آپ اس کو دیکھتے یا نئی خبر کو پوچھا کرتے تھے جنگ عظیم کے زمانہ میں آپ کو مسلمان ملکوں کی خبروں کی بڑی فکر رہتی تھی، اور حالات معلوم کرنے کا اہتمام رہتا تھا، عمومی طور پر آپ اخبار کی سرخیاں دیکھا یا سنا کرتے تھے، تاکہ ضروری اور اہم خبریں معلوم ہوجائیں، آپ کے انہی معمولات و نظام الاوقات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آپ میں کتنی جامعیت ، کتنا توازن ، اور کتنی وسعت نظرتھی نہ آپ زاہد خشک تھے کہ ہر ایک آپ سے گھبرائے اور کترائے نہ اتنے بے تکلف تھے کہ ہر ایک بے خوف ہوجائے ہر چیز اپنی جگہ، علمی وقار بھی قائم ، تصوف وسلوک کا معیار بھی بلند سے بلند تر، زمانے سے اتنے باخبر کہ ہر نئی چیزپرنظر اتنے صاحب نظر کہ ہر ایک پر صحیح گرفت اتنے بااخلاق کہ دنیا دار سے دنیا دار آدمی بھی مجلس میں آکر مستفید ہو اور اپنی اصلاح کرے غرض کہ آپ کے ان معمولات، آپ کی صفات، آپ کے علم وفضل اور معاملات کو دیکھ کر بے