صاحب مکان کے اندر سے آئے حضرت کو بیٹھے ہوئے دیکھ کر بہت ہی ندامت اور قلق کا اظہار کیا کہ حضرت اطلاع نہیں ہوئی ورنہ میں اسٹیشن پر حاضر ہوتا حضرت نے ارشاد فرمایا اس کی کیا ضرورت تھی مجھے تو مکان معلوم تھا، حضرت اپنی ضرورت سے فارغ ہوکر واپس تشریف لانے لگے انہوں نے قیا م طعام پر اصرار بھی کیا حضرت نے فرمایا کہ مشغولی تھی فلاں ضروری بات کی وجہ سے آنا ہوا تھا اور حضرت معذرت فرماکر اسٹیشن تشریف لے آئے۔(آپ بیتی ۶/۳۴۹)
سہارنپور میں مدرسہ کا ہر سال جلسہ ہوا کرتاتھا اور دور دور سے بکثرت اہل تعلق اور دینی جذبہ رکھنے والے حضرات تشریف لاتے اور اس بہانے حضرت مولانا کی زیارت کرتے بابرکت صحبت سے فیض اٹھاتے اور آپ کی توجہ سے اصلاح نفس کا فائدہ اٹھاتے ایک سالانہ جلسہ سے فارغ ہوکرآنے والے حضرات اپنے اپنے گھروں کو واپس ہورہے تھے ایک گاڑی میں جو پنجاب جارہی تھی مہمانوں کی کثیر تعداد سوار ہوئی اتفاق کی بات کہ اس ڈبے میں جو جلسہ سے فارغ ہونے والوں سے بھرا ہوا تھا ایک سادھو بھی بیٹھا ہوا تھا جو ہر دوار سے آرہا تھا اژدہام کو دیکھ کر سادھو نے پوچھا یہ کیسی بھیڑ ہے؟ حضرت مولانا کے ایک خادم نے جو اس گاڑی میں سوار تھے جواب دیا کہ سہارنپور میں ایک بڑے بزرگ رہتے ہیں یہ سب لوگ ان کی زیارت کو آئے تھے وہ سادھو حضرت مولانا کے حالات پوچھنے لگا اور اس کے بعد سرجھکا کر بیٹھ گیا وہ خادم آگے کا حال اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’کچھ دیر بعد مجھے محسوس ہوا کہ قلب پر ایک غیر مانوس اثر اور دباؤ پڑرہاہے اس کا ظاہری سبب کچھ معلوم نہیں ہوتا اور دل اندر سے گھبراتا اور اڑن ہوا جاتا ہے حیران تھا کہ دن ہے رات نہیں مجموع ہے تنہائی نہیں، ریل کا ڈبہ کھچا کھچ بھرا ہوا ہے جنگل یا بیابان نہیں ہے پھر یہ وحشت اورپریشانی کیوں ہے کہ طبیعت آپے سے نکلی جاتی ہے اور زبان گنگ اور سن ہوئی جاتی ہے اسی پریشانی میں تھا کہ دفعۃ حضرت کی شبیہ نظر آئی اور اس کا عکس دل پر پڑنا شروع ہوا اور اشارہ ہوا کہ پڑھو حسبی اللہ ونعم الوکیل چنانچہ زبان گنگ تھی مگر دل نے اس کا ورد شروع کیا اور گھبراہٹ اور اضطراب کے بادل پھٹنا شروع ہوگئے چند منٹ میں وہ کیفیت جاتی رہی اور قلب کو سکون نصیب ہوا کان میں آواز آئی سادھو کہتاہے تمہارے گروواقعی بڑے کامل اور بہت زور والے ہیں اس وقت میں سمجھا کہ یہ اثر ڈال رہا تھا ا س لئے میں نے کہا بس تم میں اتنی ہی ہمت تھی ذرا کچھ کرکے دکھایا ہوتا وہ کھسیان ہوگیا اور منہ موڑ کر بیٹھ گیا کہ پھر بات تک نہ کی۔‘‘ (آپ بیتی ۶/۳۴۹)
مظاہر علوم کے کسی جلسہ کے موقع پر مہمان بہت زیادہ ہوگئے اور کھانا اتنا پکا کہ آدھے کھانے والوں کو بھی کافی نہ تھا، مہمانوں کی کثرت تیار شدہ کھانے کی کمی، وقت کی تنگی اور دوبارہ مزید کھانا پکنے کی مشکل ایسی آگئی کہ جیسے کے منتظمین اور مدرسہ کے ذمہ دار گھبرا گئے کہ وقت اتنا زیادہ ہوگیا کہ مزید کھانا پکنے میں پورا دن لگ جائے گا اس کیفیت کا حال مولانا عاشق الٰہی صاحب اس طرح لکھتے ہیں:
’’حافظ عبداللطیف صاحب نے یہ حالت عرض کی اور یہ بھی کہا کہ باورچی بھی تھک گئے ان میں پکانے کی ہمت بالکل نہیں ، حضرت نے فرمایا کھانے کو چادروں سے ڈھانک دومیں آتاہوں چنانچہ حضرت نے تشریف لاکر کچھ پڑھا اور کھانے پر دم کرکے دعائے برکت