حضرت مولانا جہاں بھی تشریف لے جاتے آپ کی خدمت میں عوام وخواص کا ایک جم غفیر حاضر ہوتا اور بکثرت لوگ بیعت ہوتے ، آپ رنگون تشریف لے گئے وہاں علماء ،تجار، ملازم پیشہ سبھی حضرات نے آپ سے انتساب کو اپنے لئے باعث فخر جانا سہارنپور سے دہلی تک کے سارے علاقے آپ کے گرویدہ اور آپ سے عقیدت کا تعلق رکھنے والے بیعت وارادات سے مشرف ہونے والے تو اتنے زیادہ تھے جن کا شمارہی نہیں ہوسکتا۔
آپ کے دوروں میں ہر دورہ بار آورہوتا اورہزاروں اشخاص کی اصلاح وتربیت کا ذریعہ بن جاتا لیکن ان میں سب سے زیادہ کامیاب اور مفید دورہ وہ تھا وہ آپ نے اہل میوات کی خواہش پر اور مولانا محمد الیاس صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی درخواست پر حجاز جانے سے پہلے کیا اس دورہ میں میواتی حضرات آپ کے اردگرد پروانوںکی طرح جمع ہوگئے اور ان میں ہزاروں آدمی آپ سے بیعت ہوئے، اس دورہ کاحال مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی سے سنئے:
’’جب آپ نے ہندوستان چھوڑنے کی دل میں ٹھان لی تو باوجود ضعیف اور علیل ہونے کے آپ نے میوات جانے کا عزم کیا اور تشریف لے گئے یہ قدرتی ایک کشش تھی کہ آپ کا پہلا سفر اور انجان لوگوں میں جاناہوا مگر مخلوق آپ کا نام ہی سن کر زیارت کے شوق میں گھروں سے نکلی تو یہ عالم تھا کہ قصبہ نوح ہی کے نہیں بلکہ کردونواح کے دیہات اور دور دور کے ہندومسلمان بچے اورجوان ہزاران ہزار کی تعداد میں گھروں سے نکل کھڑے ہوئے اور اس شوق میں کہ پہلے ہم زیارت کریں بستی کے باہر شہروں کے دونوں طرف قطار باندھ کر دور تک پرے باندھ لئے حضرت کی موٹروہاں پہنچی تو حضرت اتر لئے اور مخلوق پر وانہ وار گری تو خدام کو اندیشہ ہوا کہ حضرت گر نہ جائیں مگر اللہ رے رحمت بھی سے آپ نے مصافحہ کیا اور آگے بڑھے کہ دس ہزار کی گوہار پیچھے تھی اور ہرشخص کی زبان پر بے اختیار یہ لفظ جاری تھے واوہ واہ پیر کیا ہیں فرشتہ ہیں دل چاہتاہے اس نور کے مکھڑے کو دیکھے ہی جاؤ، پیر بہت دیکھے مگر ایسا سونہاپیر کبھی نہیں دیکھا۔
جمعہ کا دن تھا نماز ہوئی تو مسجد اندر باہر سے لبریز چھت ساری پر، راستے دور تک بند کہ کبھی سارے ملک کو یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہواتھا، نماز کے بعد وعظ شروع ہوا اور حضرت قیام گاہ پر تشریف لے آئے کہ واعظ مرعوب نہ ہو دل کے دل وعظ چھوڑ کر حضرت کے پیچھے ہولئے کہ ہمیں تو وعظ میں ہی مزا نہیں آتا جو پیر کی صورت دیکھنے میں آتا ہے کہ نور کی شعاعیں نکل رہی ہیں گلاب کا پھول کھلا ہوا مہک رہاہے خدا جانے کتنی دیر کا مہمان ہے بس پیر کی تو صورت دیکھے ہی جاؤ پھر دیکھنا نصیب ہو یا نہ ہو پھر اس بے شمارمخلوق نے الٹی پلٹی باتوں کی اپنی گنواری زبان میں پوچھ گچھ جو شروع کی تو سننے والے پریشان ہوئے جاتے تھے مگر ہر بات کا جواب مسکرا کردیتے اور ان کی دل لگتی دلیل سے ان کو سمجھاتے تھے آخر بیعت کا وقت آیا تو ایک پر ایک گرتا اور ہرشخص چاہتا کہ یہ سعادت سب سے اول مجھے حاصل ہومگر صدہا کا مجمع اور حضرت کے دوہاتھ اس لئے عمامہ دور تک پھیلا دیا گیا اور ایک کافی نہ ہوا تو دوسرا اور تیسرا عمامہ اس میں باندھ دیا گیا اور دو طرفہ صف اس کو تھامے ہوئے دور تک چلی گئی۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۲۹۔۲۲۸)
رجوع عام کے علاوہ خواص اور علماء اہل علم وفضل اہل دل اور اہل نظر کا بھی آپ کی طرف خصوصی رجوع تھا آپ کے مریدین اور منتسبین میں اہل علم وفضل کی اتنی کثرت تھی کہ جس کی مثال ہم عصر مشائخ میں شاذونادر ہی ملے گی۔