گھبراتے تھے وہ آپ کی خدمت میں لائے جاتے تھے مدرسہ میں اگر ضخیم جلدیں موجود ہیں جن میں کئی ہزار فتاویٰ نقل ہیں اور یہ سب وہ ہیں جوخود حضرت کے لکھے ہوئے ہیں یا لکھوائے ہوئے ہیں یا دوسروں کے لکھے ہوئے اور آپ کے تصدیق کئے ہوئے ہیں ان کے علاوہ تمام خطوط میں جو مسائل آپ سے پوچھے جاتے اور خط ہی میں آپ ان کا جواب لکھوا دیا کرتے تھے وہ علیحدہ ہیں کہ ان کو جمع کیا جائے تو ایک بڑی کتاب بن جائے۔(تذکرۃ الخلیل:۲۹۶)
مولانا عبدالغنی صاحب رسولوی تحریر کرتے ہیں:
’’حضرت مہاجر مدنی نوراللہ مرقدہ کا تفقہ میں بڑا اونچا مقام تھا جب کبھی حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کو کسی مسئلہ میں الجھن ہوتی تو حضرت مہاجر مدنی کے جواب سے تشفی ہوتی۔‘‘
حضرت مولانا کی جلالت علمی اور علمی تبحر حدیث وفقہ پر دسترس کے سلسلہ میں جو کچھ اقتباس اور اشارات دئیے گئے ہیں علماء اور بزرگوں کے تبصروں اور اعتراف سے ناظرین اندازہ لگائیں گے کہ حضرت مولانا کو اللہ تعالیٰ نے کیا علمی مقام عطا فرمایا تھا کہ اہل علم وفن بھی جن کے ملکہ حدیث وفقہ پرلوگوںکو اتفاق ہے آپ سے رجوع کرتے تھے ، آپ کے سوانح نگاروں نے آپ کے بعض فتاوے ،فیصلے، محاکمے اور سوالات کے جوابات بھی تفصیل سے ذکر کئے ہیں جن کا یہاں ذکر کرنا باعث طوالت ہے جن کو ان کی تفصیلات سے دلچسپی ہے وہ حضرت مولانا کی تصنیفات فتاوے مطالعہ کریں اور لطف اندوز ہوں ورنہ اہل بصیرت کے لئے اتنا کچھ کافی ہے جو ذکر کیا جاچکاہے۔
حضرت مولانا کے علمی مقام کو سمجھنے کے لئے آپ کے ان فیصلہ کن مناظروں کی روداد اور تفصیلات کاپڑھنا بھی کافی ہے جو آپ کے اور اہل بدعت کے درمیان اور آپ کے اور اہل تشیع کے درمیان یا مشرکین کے درمیان ہوئے، بھاولپور ، بریلی، سہارنپور، میرٹھ کے وہ جلسے جو اسی خاطر ہوئے تھے آپ کی فضیلت علمی پر دلالت کرتے ہیں جن کا کچھ نہ کچھ ذکر گزشتہ اوراق میں کیا جاچکاہے، آپ کی ذہانت وذکاوت اور فن مناظرہ میں آپ کے ذہن کی رسائی اور حاضر جوابی کے متعلق مولانا عاشق الٰہی صاحب لکھتے ہیں:
’’فن مناظرہ بالخصوص رد روافض وردبدعات میں حضرت کو ید طولیٰ تھا آپ کی عادت نہ تھی کہ خود مناظرہ کی دعوت دیں یا چھیڑ چھاڑ کریں مگر جب دوسرے فریق کی طرف سے زور دیا جاتا تو اس وقت آپ شیر بن کرسامنے آتے اور مخالف کو جھوٹوں بھی یہ کہنے کا موقع نہ دیتے کہ مناظرہ سے بھاگ گئے فریق مخالف نے آپ کی ضروریات وقتیہ اور تنگی ودشواری حالات کو ٹٹول ٹٹول کر اس کی تدبیر کی کہ اس وقت آپ مناظرہ نہ کرسکیں گے اور ہمیں فرار کا الزام لگاکر اپنے معتقدین میں اپنی کامیابی کا شور مچانا نصیب ہوگا مگر آپ نے ہمیشہ اس چال کو سمجھا اور موقع ہی نہ دیا کہ آپ کی حقانیت پر کوئی دھبہ آئے۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۱۳۲)
کئی جگہ پر اسی طرح کے واقعات ہوئے کہ آپ کو مناظرہ کی دعوت دی گئی آپ میدان میں آئے اور دعوت دینے والے راستے سے ہٹ گئے راندید کاناتمام منارہ جس کو مولوی ظہور الحسن رامپوری نے منعقد کرنا چاہاتھا لیکن مناظرہ ہونے سے پہلے خود ہی