تو میں نے بطیب حاطر لے لی کہ ستحار سمجھا جاتا تھا اور ضرورت بھی تھی مگر عید کے دن جب اس کو واپس کرنا چاہا تو حضرت نے فرمایا کیا واپس لینے کے لئے دی تھی تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ عطا تھی ،اور میں نے اس کو اپنی ملک بنالیا مگر اس کو معمولی گھڑی سمجھا کچھ دنوں کے بعد گھڑی ساز میرے مکان پر گھڑیاں دیکھنے آیا تو میں نے یہ گھڑی بھی اسکو دکھائی اس نے کہا کہ تمھاری جتنی بھی گھڑیاں ہیں اس کے سامنے سب کھلونا ہیں اور یہ گھڑی اصلی انگلش لیور ہے جو بدرجہ اقل سو روپیہ کے لگ بھگ قیمت کی ہے تو میری آنکھیں کھلیں اور اس گھڑی کی وقعت میری نظروں میں ہوگئی پھر میں نے مختلف گھڑی سازوں کو دکھایا سب نے ایک زبان ہوکرکہا کہ یہ تو بڑی نادر الوجود گھڑی ہے۔
(تذکرۃ الخلیل: ۳۸۱)
مولانا عاشق الٰہی صاحب نے حضرت مولانا کے جودو سخا اور فیاضی کے کئی واقعات نقل کئے ہیں اور اپنے مشاہدات لکھے ہیں خود اپنا ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک بار مجھے بھی شوق ہوا کہ حضرت سے کوئی تبرک لیتا اور دبی زبان سے عرض کیا حضرت نے فوراً ہی چادر مبارک جس کو اوڑھ رہے تھے اتار کر لپیٹی اور خادم سے فرمایا بھئی یہ ان کے بیگ میں رکھ دینا ایک دوسرے صاحب کا واقعہ لکھتے ہیں۔
’’ایک مرتبہ کوئی بزرگ تشریف لائے اور ان کونعلین کی ضرورت تھی جیسے ہی حضرت کو یہ معلوم ہوا حضرت نے اٹھ کر اندر سے جوتوں کا ایک نیا جوڑا نذر کیا اور ان بزرگ نے اسی وقت اس عطیہ کو لے کر سر پر رکھ لیا۔(تذکرۃ الخلیل: ۳۸۱)
حضرت مولانا جب کہیں باہر تشریف لے جاتے تو واپس آتے وقت اپنے ملنے والوں اور متعلقین اور خدام کے لئے کچھ نہ کچھ تحفے بھی لاتے۔
شیخ محمد یعقوب صاحب جو پٹیالہ میں نائب تحصیلدار تھے اور حضرت مولانا سے عقیدت کا تعلق رکھتے تھے ایک بار حاضر خدمت ہوئے اور مستعمل ملبوس کی خواہش ظاہر کی آپ ململ کا کرتہ زیب تن کئے ہوئے تھے جو حج کے سفر میں بھی استعمال فرمایا تھا ،شیخ محمد یعقوب صاحب کو واپسی کی جلدی تھی اس لئے حضرت مولانا اٹھے حجرے میں تشریف لے گئے دوسرا کرتہ پہنا اور وہ کرتہ جو زیب تن کئے ہوئے تھے شیخ صاحب کو عطا فرمادیا۔
اکرام ضعیف بھی جو دوسخا کا ایک حصہ ہے آپ کی خدمت میں مہمانوں کی بکثرت آمد ہوتی تھی بہت سے حضرات گنگوہ سے حاضر ہوتے اور آپ کی خیریت معلوم کرنے کے بہانے آپ کے یہاں قیام بھی کرتے اور ان میں بہت سے ایسے تھے جو کسی اطلاع کے بغیر اور نا وقت بھی آجاتے تھے پ گھر تشریف لے جاتے معلوم ہوتا کہ صرف گھروالوں کی مقدار کے مطابق کھانا پکا ہے وہ گھر کا سارا کھانا باہرمہمانوں کے لئے آجاتا اور گھر والے صرف پانی پی کرسوجایا کرتے حضرت مولانا خود فرماتے ہیں۔
’’میں دلداری کیلئے مہمانوں کے ساتھ بیٹھ تو جاتا تھا مگر پھر خیال آتا کہ بچیوں نے کچھ کھایا نہیں اس لئے میں بھی بھوکا اٹھ جاتا تھا۔‘‘
اس صورتحال کے ہوتے ہوئے بھی کبھی حضرت مولانا کو کسی قسم کا تکدر پیدا نہ ہوا بلکہ اگر کوئی شخص بے ملے چلا جاتا تو آپ کو رنج