ایک مسئلہ میں حضرت حکیم الامت نوراﷲ مرقدہ اور بعض علماء کا اختلاف ہوا تو حضرت حکیم الامت نے حضرت سہارنپوری نوراﷲ مرقدہٗ کو حکم بنانے پر فریق ثانی کو راضی کرلیا جسکی تفصیل خوان خلیل کے جام ۷ میں موجود ہے اس پر حضرت حکیم الامت نوراﷲ مرقدہ تحریرفرماتے ہیںکہ۔
’’اس محاکمہ ی تمہید میں مولانا رحمۃ اﷲ علیہ کی عبارت قابل دید ہے وہی ہذا ’’بندہ ناچیز باعتبار اپنے علم و فہم کے اس قابل نہیں کہ علماء اعلام کے اختلاف کا فیصلہ کرسکے مگر ہاں امثالاً للا مر اس مسئلہ میں جو کچھ خیال میں آیا عرض کرتا ہے حضرت حکیم الامت نے اس کے بعد تحریر فرمایا ہے کہ تواضع اور اظہار حق میں اس طرح جمع کرنا جس درجہ کا کمال ہے ظاہرہے۔
حضرت مولانا ایک بار تھانہ بھون تشریف لے گئے وہاں مولانا احمد حسن صاحب سنبھلی سے ایک مسئلہ میں مکالمہ ہوگیا اور طرفین میں ذرا تیزی پیدا ہوگئی ۔جب حضرت مولانا روانہ ہونے لگے تو مولانا احمد حسن صاحب کو خود سلام کیااور مصافحہ کا ہاتھ بڑھایا اور فرمایا اگر مجھ سے کچھ گستاخی آپ کی شان میں ہوگئی ہو تو معاف فرمادینا۔
اسی طرح بذل المجہود کی تالیف میں جب کوئی اہل علم میں سے آتا اور ایک دو دن قیام کرتا تو حضرت مولانا اہتمام کے ساتھ بذل المجہود کا مسودہ اس کے حوالہ فرما دیتے کہ غور سے دیکھیں اور کوئی چیز قابل اصلاح ہوتو ضرور متنبہ فرمادیں۔
حضرت مولانا کی تواضع و خاکساری ،بے نفسی و انکسار کا ایک واقعہ حضرت تھانویؒ خوان خلیل میں اس طرح تحریر فرماتے ہیں۔
’’ایک سفر میں مولانا کی معیت میں بسواری ریل بھاولپور سے واپسی ہورہی تھی اتفاق سے اس درجہ میں صرف میں اور مولانا ہی تھے اور رفقاء دوسرے درجہ میں تھے ظہر کا وقت تھا گرمی سخت تھی اور پسینہ کثرت سے نکل رہا تھا ،مولانا غایت تواضع اور بے تکلفی سے پنکھا لے کر مجھ کو ہوا کرنے لگے میں اس کا تحمل کب کرسکتا تھا پریشان ہوکر پنکھا پکڑلیا فرمانے لگے کیا حرج ہے کوئی دیکھتا تھوڑا ہی ہے یہ اس لئے فرمایا تھا کہ اس وقت درجہ میں کوئی تیسرا نہ تھا میں نے عرض کیا کہ دیکھتا تو ہے فرمایا کون دیکھتا ہے میں نے کہا کہ جس کے لئے میں آپ کا ادب کرتا ہوں وہ دیکھتا ہے ہنسنے لگے اور پنکھا چھوڑ دیا ۔کیا انتہا ہے اس بے نفسی کی کہ اپنے چھوٹوں کے ساتھ یہ برتاؤاور اس سے بڑھ کر یہ کمال ہے کہ جب دیکھا کہ طبیعت پر گرانی ہے تو اپنے ارادہ پر اصرار نہیں فرمایا۔
اس کے آگے حضرت تھانوی نوراﷲ مرقدہٗ اپنے مشاہدات و تاثرات کا اظہار فرماتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’مجھ کو متعدد سفروں میں مولانا کی معیت کا اتفاقا رہا میں بکثرت دیکھتا تھا کہ محنت مشقت کا کام کرنے میں بوجھ اٹھانے میں نہ کسی رفیق کا انتظار فرماتے تھے اور نہ کسی اجیر کا ،ہر کام اپنے ہاتھ سے کرنے کو آمادہ ہوجاتے تھے خدام اس کی تکمیل نی ہونے دیتے تھے مگر بعض اوقات خدام سے سبقت فرماجاتے تھے۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مدظلہٗ العالی سہارنپور کے جلسہ کے بعد کا ایک واقعہ تحریر فرماتے ہیں جس سے حضرت مولانا کی بینظیر تواضع وحلم و بردباری پر روشنی پڑتی ہے ۔۔۔۔۔۔پہلے خود اپنے چند الفاظ تحریر فرماکر حضر ت تھانوی رحمۃاﷲ علیہ لکھتے ہیں۔