حضرت مولانا میں تواضع و انکساری حد درجہ تھی اﷲ تعالیٰ نے آپکو جو علمی مقام اور دینی فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے ساتھ تواضع و انکساری کا ہونا آپ کو جامع الصفات بنائے ہوئے تھا حضرت اشرف علی صاحب تھانوی آپ کی تواضع و انکساری کے متعلق فرماتے ہیں۔
’’مولانا رحمۃ اﷲ علیہ میں حضرات سلف کی سی تواضع تھی کہ مسائل و اشکالات علمیہ میں اپنے چھوٹوں سے بھی مشورہ فرماتے تھے اور چھوٹوں کے معروضات کو شرح صدر کے بعد قبول فرمالیتے تھے۔‘‘(خوان خلیل)
اس کے بعد حضرت تھانوی نے حضرت مولانا کی تواضع و انکساری کے کئی واقعات لکھے ہیں مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی نے آپ کی تواضع کا حال اس طرح تحریر کیا ہے۔
’’اپنے کسی ذی علم خادم کو اگر حضرت کی رائے سے خلاف ہوتا تو حضرت اس پر گرانی نہ لاتے اور عامیانہ تقلید میں اپنی موافقت پسند نہ فرماتے تھے بلکہ انکو بلا کر گفتگو فرماتے ایک بار کسی استفتا کا جواب حضرت نے لکھواکر دستخطوں کے لئے مدرسین کے پاس بھیجدیا مولوی ظفر احمد صاحب کو شرح صدر نہ ہوا اور دستخط نہ کئے حضرت نے انکو بلوایا اور فرمایا اپنا شبہ ظاہر کرو ممکن ہے ہم ہی غلطی پر ہوں ایسا ہوا تو ہم رجوع کریں گے ورنہ تم موافق ہوجاؤگے عرض کیا کہ حضرت کے سامنے ہم جاہلوں کی ہستی کیا مگر دستخط کا مفہوم چونکہ اظہار اطمینان ہے اور وہ حاصل نہ ہوا اس لئے میں نے عذر کردیا تھا ،فرمایا یہ تو عین مقصود ہے مگر میں نہیں چاہتا کہ کوئی فتویٰ یہاں سے ایسا جاوے جس پراپنوں ہی میں سے کسی کواطمینان نہ ہوچنانچہ انھوں نے شبہ عرض کیا اور حضرت نے اسکا جواب دیا دو تین بار پھر اشکال کئے اور حضرت جواب دیتے رہے حتیٰ کہ ان کو اطمینان ہوگیا اور جب دستخط کر دئے تب حضرت نے فتویٰ روانہ کیا،مولوی ظفر نے عرض کیا کہ حضرت اس وقت تو تفقہ حضرت والا پر ختم ہے کہ حق تعالیٰ نے اسی کے لئے حضرت کو پیدا فرمایا ہے بے ساختہ فرمایا میاں ظفر یہ سب گنگوہ کی حاضری کی برکت اور اپنے حضرت کی جوتیوں کا صدقہ ہے اگر میں گنگوہ حاضر نہ ہوتا تو نہ معلوم کس کھیت کا بتھوا ہوتا۔(تذکرۃ الخلیل:۳۰۴)
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مدظلہ العالی آپ کی تواضع و انکساری کے متعلق حسب ذیل تاثر کا اظہار کرتے ہیں۔
’’حضرت اقدس سہارنپوری نوراﷲ مرقدہٗ کے تواضع کے قصے تو حضرت اقدس سرہٗ کی خدمت میں سترہ سالہ قیام میں نہ معلوم کتنے دیکھے اسلئے کہ رجب ۲۸ ھ میں سہارنپور حاضری ہوئی تھی اور ذیقعدہ ۴۵ ھ میں مدینہ پاک میں حضرت نوراﷲ مرقدہٗ سے مفارقت ہوئی ہر ہر موقع پر تواضع و انکسار نشست و برخواست میں خوب ہی دیکھنے کے موقع ملے اسفار میں بھی بہت دفعہ ہمر کا بی رہی خدام کے ساتھ سامان کے اٹھانے میں ذرا بھی حضرت کو تامل نہ ہوتا تھا ۔ریل پر اترنے میں چڑھنے میں کچھ سامان حضرت نور اﷲ مرقدہ بے تکلف اٹھالیا کرتے تھے خدام عرض کرتے کہ ہمیں دیدیجئے ،فرماتے کہ وہ بڑا سامان رکھا ہے اٹھالو ،دعوتوں میں بھی حضرت کے ساتھ اکثر شرکت ہوئی کبھی امتیازی جگہ پر داعی کی درخواست کے بغیر بیٹھتے میں نے نہیں دیکھا ۔کیفما اتفق تشریف رکھنے کا ارادہ کرتے مگر داعی کی درخواست پر ممتاز جگہ بیٹھنے میں بھی انکار نہ کرتے تھے۔‘‘
(آپ بیتی :۶/۲۸۲)