دہلی میں ایک عقد کے سلسلہ میں آپ تشریف لے گئے وہاں آپ نے دیکھاکہ دولہا کا لباس ناجائز تھا اور شریعت کی رو سے وہ لباس دولہاکے لئے حرام کے درجے میں تھا آپ نے اس نکاح میں شرکت نہیں فرمائی اور وہاں سے اٹھ کر چلے گئے حضرت شیخ آپ کے اظہار حق غیرت و حمیت دینی کا حال اس طرح تحریر فرماتے ہیں۔
’’حضرت نے دولہا کے لباس حرام ہونے کی وجہ سے نکاح میں شرکت نہیں فرمائی حکیم جمیل الدین صاحب نور اﷲ مرقدہٗ کے مطب میں تشریف لاکر بیٹھ گئے اور حضرت نے کمال تاثر سے فرمایا کہ ہم لوگ اسی لئے امرا کی تقریبات میں شرکت کے قابل نہیں ہیں وہ لوگ اپنی رسومات میں اتنے پختہ کہ حرام و حلال کا لحاظ نہ کریں اور ہم شریعت میں پختہ ہوکر اپنی خوشی و ناراضگی کی پرواہ نہ کریں تو ہم پر طعن کرتے ہیں اﷲ کا شکر ہے کہ ہم دعوتوں کے بھوکے نہیں اور نہ کسی کی تقریب میں شرکت کی امنگ ،دلداری کو بھی جی چاہتا رہے گا مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معصیت کے مرتکب ہوں جس کا دل چاہے ہم کو چھوڑ دے مگر ہم سے توقع نہ رکھے کہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر ان سے ملاپ کی خواہش رکھیں گے۔(آپ بیتی نمبر: ۶/۲۳۲)
خلافت کے زمانہ میں ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف ایک ایسی فضا بنی ہوئی تھی کہ کوئی شخص بھی اختلاف رائے نہیں کرسکتا تھا اچھے خاصے لوگ حکومت کی نوکریاں چھوڑ چھوڑ کر آزادی کی اس جنگ میں شریک ہوگئے تھے اور برادران وطن کے ساتھ اتحاد کامل کی آواز بلند ہورہی تھی اور اس سلسلے میں بعض لوگ اتنا آگے بڑھ گئے تھے کہ بعض اسلامی شعائر جن کے ادا کرنے سے برادران وطن کو اذیت پہنچتی تھی ترک کرنے کا فتویٰ بھی صادر کیا تھا ان میں ذبح بقر بھی شامل تھا ،آپ نے اس سلسلے میں کوئی رور عایت نہیں فرمائی اور حق گوئی سے کام لیا اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی اتحاد میں رخنہ پڑے گا اور موجودہ دور کی تحریک کو نقصان پہنچے گا ۔مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی آپ کی حق گوئی اور اس سلسہ کے بارے میں آپ کا طرز عمل اس طرح تحریر کرتے ہیں:
’’خلافت کے زمانہ میں ہندومسلم اتحاد کوششوں پر ذبیحہ گائے کے ترک کرنے کی تحریک ہوئی اور بہتیرے علماء بھی اس خیال پر چلنے لگے مگر آپ نے بلاخوف لومۃ لائم ترک کی حرمت کا فتویٰ دیا جو اخبار وکیل امرتسر ۲۶اپریل ۱۹۱۱ء میں شائع ہوا اس وقت آپ پر بہتیرا سبُّ وشتم ہوا اور مشہور کیا گیا کہ آپ گورنمنٹی آدمی ہیں اور تنخواہ پاتے ہیں مگر حق آخر حق ہی ہے چند ہی دنوں بعد موافقت کرنے والو ں کو رجوع کرنا پڑا اور آخر صادق آیا۔‘‘
چرا کار سے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی
ایک مرتبہ آپ کا حضرت صابر کلیری کے مزار پر جانا ہوا آپ کے ساتھ مولانا رحیم بخش صاحب بھی تھے جو حضرت گنگوہی سے بیعت تھے مگر آپ کے ساتھ عقیدت و محبت کا تعلق رکھتے تھے سجادہ نشین نے چلتے وقت حضرت مولانا کی خدمت میں کچھ چیزیں ہدیہ کے طور پر پیش کرنی چاہیں پہلے وہ آپ کی طرف بڑھے آپ نے دیکھ کر فرمایا کیا بات ہے سجادہ نشین صاحب نے کہا حضرت صابر صاحب کا تبرک ہے آپ نے بغیر کسی رو رعایت کے فرمایا سجادہ صاحب آپ کو معلوم بھی ہے کہ ما اُھِلَّ لِغیْرِاﷲ ہے اس کا لینا بھی حرام اور کھانا بھی حرام یہ فرماکر آپ آگے چل دئے اور سجادہ صاحب خاموشی کے ساتھ اپنے حجرے میں چلے گئے ۔