اختلاف،رائے سہارنپور ،میرٹھ اور دوسرے مقامات میں آپکا طریقہ حق گوئی اس کی مثال ہے ،اس سلسلے کے بے شمار واقعات ہیں آپ حج میں تشریف لے گئے تو شریف حسین کے زمانے میں شرفاء مکہ کے سامنے کلمہ حق اور ابن سعود کے دور میں سلطان کے سامنے بعض مسائل پر جرأت اور حق گو ئی و بے باکی کا مظاہرہ ،قاضی ابن بلیہد سے بعض مسائل پر علمی مباحثہ آپ پڑھ چکے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضرت مولانا جرأت و بے باکی میں اور احقاق حق اور ابطال باطل میں اپنے مورث اعلیٰ ابو اسماعیل عبداﷲ ہروی کے قدم بہ قدم تھے آپ کا طریقہ ان اہل دعوت و عزیمیت کا طریقہ تھا جن کا وظیفہ زندگی کلمۃُ حق عندَسلطانِ جائز تھا۔آپ اقبال کے مصرعہ ؎
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
پر عمل پیرا تھے ،حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ارشاد فرماتے ہیں۔
’’باوجود یکہ اس احقر کے ساتھ مساویانہ بلکہ اس سے بھی زیادہ تر برتاؤ فرماتے تھے لیکن اظہار حق کا اس قدر غلبہ تھا کہ اگر میں نے استفادۃً کوئی بات پوچھی تو اس کے جواب میں کبھی تکلیف نہیں فرمایا اور کبھی ازخود متنبہ فرمایا۔‘‘(خوان خلیل: ۸۰)
مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی نے آپ کی حق گوئی کے کئی واقعات تحریر کئے ہیں:
’’ایک بار آپ کسی نکاح میں میرٹھ صدر تشریف لائے لڑکے والے نے درخواست کی کہ تبرکاً دولہا کو کپڑے حضرت پہناویں آپ وہاں تشریف لے گئے جہاں دولہا غسل کے بعد کپڑے پہنے کا منتظر تھا بندہ بھی ساتھ تھا کُرتا پاجامہ تو آپ نے اٹھا کر دے دیا اچکن کا نمبر آیا تو آپ نے کہا دیکھنا کیا ریشم کی ہے؟میں نے غور سے دیکھ کر عرض کیا کہ حضرت ریشم ہی معلوم ہوتا ہے آپ نے اس کو رکھ دیا اور فرمایا اس کا پہننا اور پہنانا حرام ہے پھر ٹوپی دیکھی تو وہ بھی مغرق اسپر حضرت نے تیز لہجہ میں فرمایا یہ بھی حرام لڑکے والے کچھ محتاط نہ تھے انھوں نے حضرت کے انکار کی پرواہ نہ کی اور خود اٹھا کر دولھا کو پہنادیا ،حضرت کا چہرہ غصّہ سے سرخ ہوگیا مگر تحمل فرمایا اور مجھ سے یہ کہہ کر کہ چلو وہاں سے واپس ہوگئے اب قیام گاہ پر بھی نہ آئے اور رنج و افسوس میں بھرے ہوئے حاجی وجیہ الدین صاحب کے مکان پر آبیٹھے فرمایا یہ کیا تعلق ہے معصیت میں شریک ہونے کو بلاتے ہیں اس نکاح میں شریک ہونے والے سب گنگارہوں گے جہاں دولہا حرام لباس پہنے بیٹھا ہو کہ کوئی عامل ہے اور کوئی اسپر راضی یہ سن کر سب میں ہل چل مچ گئی کہ برادری کا قصہ تھا،حضرت کے ساتھ کئی لوگوں کو تعلق تھا کہ نہ حضرت کو چھوڑ سکیں نہ برادری کو،دوڑے ہوئے گئے کہ کسی طرح دولہا کے کپڑے بدلوادیں مگر بہتیرے تھے کہ جن کو نہ حضرت سے تعلق تھا نہ اتباع شریعت کا اہتمام اس لئے وہ تبدیل لباس کو نحوست اور بدشگونی سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ جو دولہن کے یہاں سے جوڑا آیا ہے وہی لینا ضروری ہے مگر یہ دوڑ دھوپ کرنے والے سر بر آوردہ اور مدبر تھے آخر کامیاب ہوئے اور حاجی وجیہہ الدین صاحب مصری کپڑے کی بیش قیمت اپنی اچکن نکال کر جلدی سے پہنچے کہ اس سے بہتر تو دولھا کو یہ جوڑا ہندوستان میں بھی کہیں نصیب نہ ہوگا وہ پہنا کر اور ٹوپی کے بجائے عمامہ بندھوا کر حضرت کے سامنے لے آئے کہ حضرت اب تو تشریف لے چلیں ،اس وقت آپ اٹھے اور شریک عقد ہوئے۔(تذکرۃ الخلیل:۳۲۴)