’’حضرت سہارنپوری نوراﷲ مرقدہ ۱۳۳۴ھ میں ایک سالہ قیام حجاز کے بعد جب سہارنپور تشریف لائے تو یہ کہہ کر مدرسہ کی تنخواہ بند کر دی تھی کہ میں اپنے ضعف و پیری کی وجہ سے مدرسہ کا پورا کام انجام نہیں د ے سکتا ،مگر اب تک چونکہ مولانا محمد یحییٰ صاحب میری جگہ اسباق پڑھاتے تھے اور تنخواہ نہیں لیتے تھے وہ میرا ہی کام سمجھ کر کرتے تھے اب چونکہ ان کا انتقال ہوچکا ہے اور میں مدرسہ کی تعلیم کا پورا کام نہیں کرسکتا ،اس لئے قبول تنخواہ سے معذور ہوں۔‘‘(آپ بیتی نمبر۶/۲۰۹)
دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں جس سے حضرت مولانا کے کمال کا احتیاط کا پتہ چلتا ہے:
’’حضرت سہارنپوری نوراﷲ مرقدہ اتنے سبق پڑھاتے رہتے اتنے تو مدرسہ کی قالین پر تشریف فرمارہے تھے لیکن جب سبق کے بعد اپنے اعزہ میں ذی وجاہت شخص سے بات شروع کی تو قالین سے نیچے اتر گئے اور فرمایا کہ مدرسہ نے یہ قالین ہمیں سبق پڑھانے کے لئے دیا ہے ذاتی استعمال کے لئے نہیں۔
مدرسہ میں حضرت کی چارپائیاں مستقل علیحدہ دو رہتی تھیں ،مدرسہ کی چارپائی یا بستر پر میں نے آرام فرماتے یا بیٹھتے نہیں دیکھا۔‘‘(ایضا)
مدرسہ مظاہر العلوم میں ہر طرح کے لوگ آیا کرتے تھے علماء و مشائخ بھی اور روسا،وامراء بھی جب بھی کوئی عالم یا دینی حیثیت سے قابل ذکر شخصیت آتی تو حضرت مولانا مدرسہ دکھانے خود ساتھ رہتے ،اس کا اکرام کرتے لیکن اگر کوئی امیر اور دنیادار یا عہدہ دار آتا تو آپ کی غیرت و حمیت دینی اور عزیمت اس بات سے آیا کرتی کہ آپ اس کی تعظیم کریں اور اس کی خاطرداری کریں یہ پہلو عزیمت کا وہ پہلو ہے جس میں علماء تک رخصت اختیار کرلیتے ہیں لیکن آپ کا ایسے موقع پر کیا طور و طریقہ رہتا وہ سنئے !حضرت شیخ الحدیث صاحب مدظلہ تحریر کرتے ہیں:
’’مدرسہ مظاہر علوم میں بھی بسا اوقات کلکٹر وغیرہ اپنی انتظامی مطالح سے آتے رہتے تھے میں نے اپنے حضرت قدس سرہ کو بھی مدرسہ کے دروازہ تک یا اس کے اندر آنے پر اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے نہیں دیکھا حضرت مہتمم صاحب نور اﷲ مرقدہ اور ان کے ساتھ ایک آدھ مدرس اور منتظم دفتر باہر ہی نمٹ لیتا تھا۔‘‘ (آپ بیتی نمبر۶:۲۲۳)
عبادات خصوصاً نماز میں آپ کا درجہ عزیمیت کہیں بڑھ جاتا تھا اور آپ وہ مجاہدہ فرماتے جو اصحاب دعوت و عزیمیت ہی کا حصہ ہے ،مولانا عاشق الٰہی صاحب مرٹھی لکھتے ہیں۔
’’نماز تو آپ کی ہر جگہ قرۃ العین تھی پھر کیا پوچھنا نماز مسجد الحرام کا کہ آپ کے صدہا رفیقوں میں کوئی ایک بھی نہیں بتا سکتا کہ فلاں نماز میں آپ کی تکبیر تحریمہ یا صف اول امام کی جانب یمین آپ سے فوت ہوئی ہو،سخت گرمی میں جبکہ فرش صحن پر پاؤں رکھنے سے چھالے پڑتے تھے آپ ظہرمیں انگلیوں کے بل تیز چل کر مصلّی حنفی پر پہنچتے اور صف اول میں امام کا قرب لیاکرتے تھے مجھے خوب یاد ہے کہ ایک مرتبہ بعد مغرب بارش زور کی ہوئی اور رفقاء کی زبانوں پر آیا الاصلو افی الرحال پر عمل کا وقت حق تعالیٰ نے دکھایا ،مگر حضرت نے اذان کی آواز کان میں پڑتے ہی مجھ سے فرمایا چلو بھائی نمازکو،ہر چند کہ میری ہمت بھی پست تھی مگر لالٹین ہاتھ میں لیکر ساتھ ہولیا اور حضرت نے پانی سے بھرا ہوا لوٹا ہاتھ میں اٹھالیا،میں بالکل نہ سمجھا کہ باوضو ہوتے ہوئے اس کی کیا ضرورت ہے مگر