۱۲۹۳ھ میں جب آپ اپنے پہلے حج کے ارکان ادا کرچکے اور مدینہ منورہ تشریف لے جانا چاہا تو حضرت حاجی امداد اﷲصاحب مہاجر مکی نے ارشاد فرمایاکہ مولوی خلیل احمد کہو کیا ارادہ ہے سنتاہوں کہ مدینہ منورہ کے راستہ میں امن نہیں اس لئے حجاج بکثرت وطن جارہے ہیں حضرت مولانا نے اس کا جواب دیا وہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے،آپ نے عشق نبوی سے سرشار ہوکر عرض کیا:
’’حضرت میرا مقصد تو مدینہ منورہ کا پختہ ہے کہ موت کے لئے جو وقت مقرر ہوچکا وہ کہیں بھی نہیں ٹل سکتا اور اس راستہ میں آجائے تو زہے نصیب کہ مسلمان کو اور چاہئے کیا اﷲ کا فضل ہے کہ اس نے یہاں تک پہنچا دیا اب اگر موت کے ڈر سے مدینہ طیبہ کا سفر چھوڑ دوں تو مجھ سے زیادہ بدنصیب کون؟‘‘
زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلنے تھے کہ حضرت حاجی صاحب کا چہرہ خوشی و مسرت سے کھل اٹھا اور فرمایا:
’’بس بس تمہارے لئے یہی رائے ہے کہ ضرور جاؤ اور انشاء اﷲتعالیٰ پہنچو گے۔‘‘
یہ شوق و ذوق اور دیار محبوب کی زیارت اور بے قراری و بے تابی عشق نبوی کا نتیجہ تھی کہ آپ بادہ عشق نبی سے سرشار اور اسی میں بے تاب و بے قرار رہتے بقول میر دردؔکے۔
لاگ گر دل کو نہیں ،لطف نہیں جینے کا
الجھے سلجھے کسو کا کل کے گرفتار رہو
آپ کے عشق نبوی کا ذکرمولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی اس طرح کرتے ہیں:
’’عشق رسول کی آگ آپ کی رگ رگ میں اتنا اثر کر گئی تھی کہ آپ نے بارہا عرب کا سفر صرف اسی شوق و آرزو میں کیا کہ ہر مرتبہ آپ کی ہجرت کا شور عوام کی زبانوں پر مچا آخر جب وقت آیا تو پورا ہوکر رہا اور وہ آتش فراق بلقائے محبوب ٹھنڈی ہوئی جس نے آپ کو صرف ایک دروازہ کا بنا رکھا تھا۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۳۲۴)
کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ حسب معمول ایک رات مدینہ منورہ کی گلیوں میں گشت لگا رہے تھے تو ان کو ایک جھونپڑی میں روشنی نظر آئی قریب گئے تو دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت روئی دھن رہی ہے اور یہ گاتی جاتی ہے۔
علی محمد صلوٰۃ الابرار صلی علیہ الطیبون الاخیار
قد کنت قواما بکیً بالاسحار یالیت شعری والمنا یا اطوار
ھل تجمعنی وحبیبی الدار
-1محمد پر پاکیزہ نفوس کا درجہ ہو،پسندیدہ منتخب حضرات کا ان پر سلام ہو۔
-2میں راتوں کو جاگتی ،سحر تک آنسو بہاتی رہوں اے کاش !موت کی بھی تو شکلیں ہیں۔
-3کیا ہمارے حبیب سے ہم کو دار آخرت ملائے گی؟
اس بوڑھی عورت کے ان درد انگیز اشعار سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اشکبار ہوگئے اور زار و قطار رونے لگے جب ذرا