حضرت مولانا کا یہ ہمیشہ سے معمول تھا کہ وہ رخصت کے بجائے عزیمیت کا پہلو اختیار کرتے،نمازمیں ،حج میں،روزہ میں ،معاشرتی امور اور معاملات میں وہ کام کرتے جن کو انجام دینے میں جوان سے جوان اور دل گردہ رکھنے والا انسان بھی ہمت چھوڑ بیٹھتا ،سنن و مستحباب کا اہتمام، کامل احتیاط،تقویٰ اور ورع کا التزام آپ کی زندگی کا وہ اہم باب تھا جس کی مثال صرف اسلاف کی زندگیوں میں ملتی ہے اس سلسلہ کے چند واقعات و مشاہدات پیش نظر کئے جاتے ہیں:
’’سخت ترین گرمی اور لُو کا زمانہ تھا رمضان المبارک کا مہینہ تھا حضرت اقدس مولانا خلیل احمد صاحب قدس سرہ کی طبیعت ناساز چل رہی تھی پیچش کی شدید تکلیف تھی حضرت نے کئی روز تک دوا سے افطار پر قناعت کی کوئی غذا نہیں کھائی جمعہ کا دن آیا مولوی عبداﷲ جان وکیل بھی مدرسہ جمعہ پڑھنے کیلئے آئے انھوں نے دیکھا کہ چہرہ نہایت پژمردہ ہے اور ضعف و نقاہت کے آثار نمایاں ہیں ،وہ تو یہ حالت دیکھ کر ستون کے پیچھے ہوکر رونے لگے،مولانا حافظ عبدالطیف صاحب (ناظم مدرسہ مظاہر علوم )نے عرض کیا کہ حضرت کا کئی روز سے فاقہ ہے ،تکلیف زیادہ ہے ،روزہ قضاء فرمادیتے آخر فقہا نے رخصت لکھی ہی ہے اور مولوی عبداﷲ جان تو رورہے ہیں،حضرت قدس سرہ کا چہرہ فوراً متغیر ہوگیا اور فرمایا کہ حافظ صاحب کیسی بات کہتے ہیں ارے روزہ !اور پھر رمضان کا روزہ ،پھر ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ مقلب القلوب ہیں کہ مولوی عبداﷲ جان جیسا کوہ وقار انسان بھی متاثر ہوجائے۔‘‘(آپ بیتی نمبر۶: ۲۱۲)
اس سے بڑھ کر اور کیا عزیمت ہوگی کہ ایسے پر مشقت کاموں اور حالات کا انکشاف بھی گوارا نہ کرتے بلکہ اظہار اس کا ہوتا کہ کوئی بات نہیں ،اخفاء حال بھی عزیمیت کا ایک بلند درجہ ہے اور یہ اسلاف ہی کا حصہ ہے اس ضمن کا ایک واقعہ مفتی محمود صاحب مولوی لطیف الرحمٰن صاحب کاندھلوی سے نقل کرتے ہیں۔
’’میں ( مولوی لطیف الرحمٰن )ایک مرتبہ پیالہ لے کر حضرت اقدس سہارنپوری کے دولت کدہ پر گیا حضرت کے منتظم کار حاجی مقبول احمد صاحب آئے میں نے ان سے کہا کہ مطبخ کی دال کھائی نہیں جاتی تھوڑا سا سالن دیدیجئے انھوں نے جواب دیا کہ آج تو سالن ہے نہیں ،میں نے کہا کہ حضرت کے سالن میں سے دیدو انھوں نے جواب دیا کہ حضرت کا سالن بھی نہیں آج گھر میں فاقہ ہے ،اس پر میں نے کہا کہ اچھامیں بازار سے حضرت کے لئے کچھ لے آؤں اس پر انھوں نے فوراً میرے پیر پکڑلئے کہ اﷲ کے واسطے ایسا نہ کرنا ،ورنہ میری آفت آجائے گی کہ گھر کا راز کیوں ظاہر کیا لیکن گھر سے باہر جب حضرت تشریف لائے تو بڑے اعلیٰ لباس میں کہ کسی کو ادنیٰ شبہ بھی نہ ہوکہ گھر میں فاقہ ہے، ایک شاہانہ انداز میں تشریف لاتے تھے،یہ عمدہ اور اعلیٰ لباس تو غیرت الٰہی کی وجہ سے تھا کہ صورتحال سے کسی کو شبہ نہ ہو کہ ان کے پاس ہے نہیں صورت سوال نہ بن جائے اور حق تعالیٰ کا شکوہ و شکایت نہ ہو اور گھر کا فاقہ غایت تحمل اور اتباع سنت ہے۔‘‘
(ایضا: ۲۰۰)
حضرت مولانا کے احتیاط و تقویٰ اور عزیمیت کا حال یہ تھا کہ جو چیز آپ ہر طرح استعمال فرما سکتے تھے اور رخصت کو اختیار کر سکتے تھے اس کو بھی اپنے ذاتی کاموں پر استعمال کرنا خلاف عزیمیت اور مخالف تقویٰ جانتے تھے حضرت شیخ الحدیث صاحب مدظلہ العالی فرماتے ہیں۔