صرف اپنوں کو ہی اپیل نہیں کرتی تھی ،بلکہ جو بھی دیکھتا تھا خواہ وہ مسلمان ہویا کافر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا وہ واقعہ یہ ہے۔
’’ایک بار سفر میں تھے اسٹیشن پر ظہر کا وقت ہوا اور جماعت کا انتظام کیا گیا ،آپ نے ظہر کی سنتیں حسب عادت کمال اعتدال کے ساتھ پڑھیں اور پھر فرضوں کی جماعت ہوئی چند انگریزبھی نماز کے منظر کو دیکھ رہے تھے جماعت سے فارغ ہوکر سب نے سنتوں کی نیت باندھی اور جب اس سے فارغ ہوگئے تو ایک انگریز نے ایک نمازی سے پوچھا کہ تم کس طرح کی نماز پڑھ رہے ہو؟کہا خدا کی نماز پڑھتے تھے انگریز نے حضرت کی طرف اشارہ کرکے پوچھا اور یہ کس کی نماز پڑھ رہے ہیں؟کہا یہ بھی خدا کی نماز پڑھتے ہیں تو وہ انگریز بے ساختہ بولا کہ ہاں یہ پادری تو بیشک خدا کی نماز پڑھتا ہے مگر تم خدا کی نماز نہیں پڑھتے معلوم نہیں کس کی پڑھتے ہو۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۳۲۴)
آپ کا اتباع سنت صرف عبادات تک محدود نہ تھا بلکہ معاشرتی امور ہوں یا عادات واطوار ان سب میں آپ کا طریقہ کار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور آپ کے اسوہ حسنہ کو اختیار کرنے کا تھا ،جب آپ بھاولپور میں تھے اس وقت آپ کی عمر ۲۵،۲۰ سال کی تھی مگر اتباع سنت میں آپ کا درجہ سب سے بلند اور ممتازتھا،ایک مرتبہ بھاولپور کے دور قیام میں کسی افسر نے افطار کی دعوت کی جس میں حکومت کے ارکان ،عمائد،اور معزز حضرات بھی مدعو تھے میز اور کرسیوں کا انتظام تھا ،ارکان حکومت میں اکثر حضرات پہلے سے ہی آکر کرسیوں پر بیٹھ گئے تھے ،تھوڑی دیر میں حضرت مولانا اپنے خدام کے ساتھ تشریف لائے منظر کودیکھا اور نہایت سادگی اور بے تکلفی کے ساتھ ایک طرف دری پر بیٹھ گئے اور فرمایا ’’اسلام میں کھانے پینے کا طریق یہی ہے کہ فرش پر بیٹھ کر کھایا جائے میز و کرسی کی ضرورت نہیں‘‘۔حضرت مولانا کے اس قول و عمل کے بعد کسی کی بھی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ اعتراض کرے بلکہ اس کا اثر یہ پڑا کہ سارے حضرات آپکے ارد گرد بیٹھ گئے اور سنت کے موافق دسترخوان بچھا اور سب لوگوں نے سنت کے مطابق بیٹھ کر افطار کیا۔
معمولی سے معمولی باتوں میں آپ سنت نبوی کا اہتمام فرماتے اور دوسروں کو تاکید فرماتے کہ وہ ہر موقع پر سنت کا اہتمام فرمائیں،کھانا کھانے سے پہلے اگر کوئی ہاتھ نہ دھوتا اور یہ کہتا کہ میں ابھی وضو کرکے یا غسل کرکے آیا ہوں یا میرے ہاتھ صاف اور پاک ہیں تو آپ فرماتے:
’’یہ تو کھانے کی سنت ہے طہارت یا نظافت کے لئے نہیں ہے مسلمان جب کھانا کھاوے تو یہ نیت ادائے سنت اول بھی ہاتھ دھووے اوربعد میں بھی ۔‘‘
مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی آپ کے اتباع سنت کے متعلق لکھتے ہیں۔
’’ہر امرمیں اتباع سنت آپ کی عادت تھی کہ کسی وقت بھی ذہول نہ ہوتا تھا ،مدرسہ کی ایک ضرورت کے لئے آپ نے بندہ کے ساتھ ایک بار مولوی یحییٰ صاحب سہرامی کو کلکتہ بھیجا تو میرے نام تحریر فرمایا۔السلام علیکم :قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یسیر اولا تعسرا وبشرا ولا تنفر اوتطاوعاولا تختلفا ۔ والسلام خلیل احمد عفی عنہ۔