کے صیغے دریافت کرتے جاتے اور نحو کی ترکیب بھی پوچھتے جاتے اسی طرح نحومیر پڑھنے کے زمانے ہی میں مجھے عربی لکھنے اور بولنے کی مشق ہوگئی تھی میں نے اسی زمانہ میں اپنے ایک ساتھی کو دیوبند خط لکھا تو اس میں عربی کے چند اشعار بھی لکھے تھے جن میں سے ایک شعر یاد ہے۔‘‘ ؎
انا ما رایتک من زمن فاذداد فی قلبی الشجن
حضرت حکیم الامت رحمۃ اﷲ علیہ نے میرا یہ خط دیکھ لیا تو بہت ہی دھمکایا کہ ابھی سے شعرو شاعری کا مشغلہ اختیار کردیا ابھی تو محنت کرنے اور یاد کرنے کا زمانہ ہے مگر مولانا عبداﷲ صاحب سے فرمایا کہ میں نے اگر چہ ظفر کو شعرو شاعری پر دھمکایا ہے مگر آپ کی خوبی تعلیم کا مجھ پر بہت اثر ہوا کہ نحومیر پڑھنے والے کو عربی شعر بنانے کی لیاقت ہوگئی۔
(آپ بیتی نمبر:۷)
۱۲شوال ۱۳۲۷ ھ میں مظاہر علوم میں بحیثیت مدرس تشریف لائے اور ۱۳۲۸ ھ میں حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کی طرف سے اجازت و خلافت مرحمت فرمائی گئی۔
۱۳۲۹ھ میں سہارنپور سے کاندھلہ تشریف لے گئے اور مدرسہ عربیہ میں آخر عمر تک تعلیم دیتے رہے اور ۱۰ِرجب ۱۳۳۹ھ مطابق ۲۶ِمارچ ۱۹۲۱ء شب شنبہ میں انتقال فرمایا۔
مولانا نے کئی کتابیں تصنیف فرمائی تھیں۔
۱۔اکمال الشیم جو حضرت مولانا خلیل احمد صاحب نوراﷲمرقدہٗ کی کتاب اتمام النعم کی شرح ہے اور حضرت ہی کے حکم پر لکھی تھی ۔
۲۔تیسیر المبتدی اور تیسیر المنطق ،تیسیر المبتدی تھانہ بھون کے قیام کے دوران لکھی تھی اور اس پر حضرت کی تقریظ بھی ہے اور تیسیر المنطق کاندھلہ کے اثنائے قیام میں تصنیف کی تھی ۔
مولاناکو اﷲ تعالیٰ نے علم و فضل کے ساتھ ساتھ زہد و تقویٰ خشیت الٰہی کا جذبہ بھی عطا فرمایا تھا باوجود اس کے کہ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کے مجاز تھے تحصیل سلوک اور کمال خشیت الٰہی کا ذوق و شوق بڑھتا ہی جاتا تھا ان کے زہد و ورع اور تعلق مع اﷲ کی کیفیت حسب ذیل واقعے سے عیاں ہوتی ہے جو حضرت شیخ مولانا محمد زکریا صاحب نے تحریر فرمایا لکھتے ہیں۔
’’شوال ۳۳ ھ جب حضرت قدس سرہ ٗ حجاز تشریف لے جارہے تھے تو مولانا مرحوم نے تجدید بیعت کی درخواست کی اتفاق سے اسی دن اس سیہ کا ر نے بھی بیعت کی درخواست کر رکھی تھی اور حضرت قدس سرہٗ نے ارشاد فرمادیا تھا کہ مغرب کے بعد جب میں نفلوں سے فارغ ہوجاؤں تو میرے پاس آجانا یہ ناکارہ مغرب کے بعد ہی سے حضرت کے پیچھے فصل سے بیٹھا رہا نوافل کے بعد جب حضرت قدس سرہٗ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو یہ ناکارہ قریب حاضرہوگیا اور مولانا مرحوم بھی جو مدرسہ قدیم میں دوسری جانب دور بیٹھے ہوئے تھے حاضر خدمت ہوگئے نوراﷲمرقدہٗ نے ہم دونوں کا ہاتھ پکڑ کر خطبہ شروع فرمایا اور مولانا مرحوم پر اس زور کاگریہ شروع ہوا کہ