کاندھلہ میں ایک بڑا مشہور دینی و علمی خانوادہ ہے جس میں صدیوں سے علماء ،حفاظ اور مشائخ پیدا ہوتے رہے ہیں ،اسی خانوادہ علم و عمل کے چشم و چراغ مولانا محمد یحیٰ صاحب بھی تھے والد ماجد کا نام مولانا محمد اسماعیل تھا جو بنگلہ والی مسجد نظام الدین دہلی میں بچوں کو پڑھاتے تھے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ دعوت و تبلیغ کا اہم فریضہ بھی انجام دیتے تھے ،زہد و تقوی میں ان کا کوئی مثیل نہ تھا مولانا محمد یحیٰ صاحب کے دو بھائی اور تھے بڑے بھائی کا نام مولانا محمد تھا جو زہدو تقویٰ میں اپنے والد کے قدم بقدم تھے چھوٹے بھائی کا نام مولانا محمد الیاس صاحب تھا جو دعوت و تبلیغ میں فرد فرید اور تحریک تبلیغ کے بانی مبانی تھے۔
مولانا محمد یحیٰ صاحب عزہ محرم ۱۲۸۷ھ میں پیدا ہوئے تاریخی نام بلند اختر تھا مولانا فطری طور پر ذہین و ذکی اور طبعاً لطیف المزاج تھے ،سات سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرلیا تھا اور روزانہ ایک قرآن ختم کرلینے کا معمول تھا ،والد ماجد سے عربی شروع کی جنھوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تربیت بھی کی ۔خود شب زندہ دار تھے اس لیے بیٹے کو بھی آخر شب میں بیدار کر دیتے تھے مولانا اٹھ کر چند نوافل پڑھ کرکتاب دیکھنے لگتے مولانا کو علم کا شوق ابتدائے عمر سے تھا ،ادب کا خاص ذوق رکھتے تھے ،علمی استعداد بلند تھی ،علوم تقلیہ کے ساتھ فنون عقلیہ میں دستگاہ رکھتے تھے عربی ادب میں اتنا ملکہ حاصل تھا کہ نثر اور نظم دونوں بے تکلف لکھتے تھے ،منطق اور ادب کے علاوہ باقی کتابیں حدیث کو چھوڑ کر مدرسہ حسین بخش دہلی میں پڑھیں اور حدیث شریف حضرت گنگوہی سے پڑھی مگر اس طرح کہ حضرت گنگوہی کو نزول الماء کی شکایت ہو گئی تھی اور دورہ حدیث بند ہوچکا تھا حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری نے نظام الدین میں مولانا محمد یحیٰ صاحب کا حدیث میں امتحان لیا تھا اور ان کی علمی استعداد کو دیکھ کر حضرت گنگوہی سے عرض کیا کہ ایک مرتبہ دورہ میری خاطر مولوی یحیٰ کو اور پڑھا دیجئے کہ ایسا شاگرد حضرت کو نہ ملاہوگا۔
حضرت گنگوہی نے پھر آخری دورہ پڑھایا اور مولانا محمد یحیٰ کی خاطر ایک جماعت شریک ہوئی۔
اس دورہ کے بعد مولانا محمد یحیٰ گنگوہ ہی کے ہوکر رہ گئے اور نہ صرف پورے بارہ برس تک یعنی حضرت گنگوہی کی وفات تک رہے بلکہ حضرت کی وفات کے بعد بھی ۱۳۲۸ھ تک اس بارگاہ رشیدی کی چوکھٹ کو نہ چھوڑا مولانا محمدیحیٰ صاحب حضرت گنگوہی کے مزاج شناس بھی تھے اور عاشق زار بھی خود حضرت گنگوہی کو ان سے ایسا لگاؤاور تعلق خاطر تھا کہ دوسروں میں سے کسی سے نہ تھا حضرت اکثر فرمایا کرتے تھے کہ مولوی یحیٰ تو میری آنکھیں ہیں یہی وجہ تھی کہ مولانا محمدیحیٰ ایک لمحہ کے لئے حضرت کو نہ چھوڑتے تھے نہ حضرت گنگوہی ان کے بغیر رہ سکتے تھے اس تعلق و محبت کے کئی واقعات ہیں ایک بار کسی کام کو مولانا لال مسجد تک گئے تو حضرت بے چین ہوگئے اور بار بار پکارا آخر جب حاضر ہوئے تو فرمایا یہاں سے کہاں چلے گئے تھے ایک مرتبہ کسی کام میں ذرا دیر لگ گئی تو حضرت نے کئی بار پکا را پھر فرمایا خدا جانے کہاں بیٹھ رہے آخر جب آئے تو آپ نے یہ شعر پڑھا۔
مت آئیو اووعدہ فراموش تو اب بھی
جس طرح کٹا روز گزر جائے گی شب بھی
حضرت مولانا محمد یحیٰ صاحب کو حضرت مولانا خلیل احمد صاحب نور اﷲ مرقدہٗ نے بڑے ذوق و شوق سے خود گنگوہ تشریف لے