نے عبداﷲ بتایا مشغلہ پوچھا تو اس نے عرض کیا کہ انگریزی پڑھتا ہوں ،مولانا نے فرمایا۔
’’چھٹی کے اوقات میں تھوڑی تھوڑی عربی بھی پڑھ لیا کرو انگریزی کے ساتھ ساتھ مولوی بھی ہوجاؤ گے۔‘‘
وہ صاحبزادے اس پر راضی ہوگئے اور کچھ دنوں تک مولانا محمد یحی صاحب سے عربی پڑھتے رہے اور انگریزی اسکول میں انگریزی مگر خدا کا کرنا کہ تھوے عرصہ بعد عربی کی وقعت دل میں ایسی پیدا ہوگئی کہ انگریزی اسکول سے نام ہی کٹا کر اوّل سے آخر تک مولانا محمد یحیٰ صاحب سے عربی اور دینی تعلیم حاصل کی اور اس میں کمال پیدا کرکے عالم کامل بنے اور مسٹر عبداﷲ سے مولانا عبداﷲ ہوئے اور پھر حضرت گنگوہی سے بیعت ہوئے اور ایسے بیعت ہوئے کہ زیادہ تر وقت صحبت بابرکت میں گزارنے لگے حضرت گنگوہی کے وصال کے سال تھانہ بھون میں تھے کہ حضرت مولانا اشرف علی صاحب نے فرمایا کہ حضرت گنگوہی کے آپ مرید ہیں ان کی خدمت میں جائیے وہ حاضر ہوئے اور انھیں کی موجودگی میں انتقال ہوا حضرت گنگوہی سے بہت تعلق رکھتے تھے اور خلوت و جلوت کے حاضر باش تھے حضرت گنگوہی کے انتقال کے بعد حضرت مولانا خلیل احمد سے بیعت ہوئے ۔یہ زمانہ تھانہ بھون کے قیام کا تھا ان کے راہ سلوک طے کرنے میں بعض ایسی رکاوٹیں پیش آئیں کہ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب نے تکمیل سلوک کے لئے یہ ضروری سمجھا کہ وہ سہارنپور آکر ایک عرصہ تک قیام کریں انھوں نے اس پر عمل کیا اور پھر تکمیل سلوک کی۔اورحضرت مولانا خلیل احمد صاحب کی جانب سے اجازت و خلافت حاصل کرکے شیخ طریقت ہوئے۔ ذلک فضل اﷲ یوتیہ من یشاء و اﷲ ذوالفضل العظیم
مولانا عبداﷲ صاحب گنگوہ میں ۱۲۹۸ھ میں پیدا ہوئے ،پانچ چھ سال کی عمر میں انگریزی شروع کی ۱۳سال کی عمر تک انگریزی پڑھی پھر مولانا محمد یحیٰ صاحب سے عربی شروع کی اور ۱۳۱۸ھ تک جبکہ ان کی عمر بیس سال کی تھی عربی علوم میں مہارت پیدا کرلی اور بڑے ذی استعداد ہوئے اسی سال حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے مولانا شبیر علی صاحب کی تعلیم کے لئے مولانا محمد یحیٰ صاحب سے کہا کہ کسی ذی استعداد طالب علم کی ضرورت ہے آگر آپ کے پاس کوئی ایسا طالب علم ہوتو مجھے دے دیجئے تو مولانا محمد یحیٰ صاحب نے مولانا عبداﷲ کو یہ کہہ کر دے دیا کہ انشاء اﷲ تعالیٰ یہ آپ کی مرضی کے مطابق تعلیم دے گا مجھے اس پر اطمینان ہے ۔ ‘‘
مولانا عبداﷲ صاحب تھانہ بھون میں دس سال رہے اور مولانا شبیر علی صاحب برادرزادہ حضرت تھانوی اور مولانا ظفر احمد صاحب خواہر زادہ حضرت تھانوی کو پڑھاتے رہے مولانا شبیر علی صاحب اور مولانا ظفر احمد صاحب ان کے طرز تعلیم کی بڑی تعریف کرتے ہیں مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں۔
’’مولانا عبداﷲ صاحب کو ابتدائی تعلیم صرف و نحو وادب میں کامل مہارت تھی میں نے میزان منشعب ،پنج گنج کے ساتھ ساتھ تیسیر المبتدی پڑھی تھی حصہ صرف ختم ہونے کے بعد نحو میر کے ساتھ اس کا حصّہ نحو پڑھا تھا مولانا اس زمانہ میں ہم سے اردو کی عربی اور عربی کی اردو بنوایا کرتے تھے عصر کے بعدسیر و تفریح کو جاتے اور ہمیں ساتھ لیتے خود قرآن شریف پڑھتے جاتے اور ہم سے قرآن