پر خصوصی توجہ کی ہے۔
(۲)
مولف نے سنن کے مختلف رائج نسخوں کے تقابل کے بعد ان کی تصحیح کی کوشش کی ہے مثالی طور پر باب افتتاح الصلوٰۃ میں ابو حمید ساعدی کی حدیث کے سلسلہ میں اس کا مشاہدہ کیاجاسکتا ہے۔
(۳)
مولف نے تعلیقات سنن کی تخریج کا بڑا اہتمام کیا ہے اور دوسری کتابوں میں اس کی تلاش و جستجو کرکے صحیح مخرج ذکرکرنے میں بڑی محنت صرف کی ہے اور اگر کہیں پوری کوشش کے بعد بھی اس کی سند دریا فت نہ ہوسکی تو بغیر کسی تردد کے صاف اظہار کردیا ہے۔
(۴)
مولف نے روایات کو ترجمہ (عنوان باب)کے ساتھ تطبیق دینے میں اپنی دقت فہم ،نکتہ رسی اور باریک بینی کا بڑا واضح ثبوت پیش کیا ہے جہاں ابواب مکر رآئے ہیں وہاں اس تکرار کی حکمت اور افادیت کا ذکر کیا ہے مثال کے طور پر ’’باب صفایا رسول صلی اللہ علیہ وسلم من الاہوال‘‘اور ’’باب سہم الصفی‘‘ دیکھے جاسکتے ہیں دیکھئے۔ (کتاب الخراج والفئی والامارۃ)
(۵)
جہاں پرشار حین نے کسی حدیث یا متعلقات حدیث کے سلسلہ میں کوئی اختلاف کیا ہے،وہاں انھوں نے اپنا رجحان جس پر ان کا دل منشرح ہوا اور جوبات خدا تعالیٰ نے انھیں سمجھائی ۔بے کم و کاست ذکرکردی ہے اور اختلاف کو اس طرح حل کیا ہے کہ دل کو اطمینان کی ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے اور گتھی سلجھ جاتی ہے۔
اس عظیم تالیف کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ کتب حدیث کی شرح ،یا مذہب حنفی کے اثبات وتائید ،یا کسی اختلافی مسئلہ میں ہندوستان میں اکثر جو تالیفات ہوئیں ان پر کلامی اسلوب ،مناظرانہ طرزاور عقلی استدلال کا رنگ غالب رہتا تھا،اور علمی لطیفوں اور نکتوں کی بڑی فراوانی ہوتی تھی،ان کتابوں کے علمی وکلامی مقام و اہمیت اور مؤلفین کی نیک نیتی اور علم میں ان کا بلند پایہ ،رسوخ اور کمال کے اعتراف کے ساتھ ساتھ یہ بات قابل مواخذہ ہے کہ اس میں محدثین کے طرز و طریقہ اور قدمائے شارحین حدیث کے اسلوب کی رعایت نہیں کی گئی انھیں حدیث کے فنی مباحث مثلا رواۃ حدیث پر کلام ،جرح و تعدیل ،علل حدیث اور حدیث کے مختلف درجوں ،اصول حدیث کی کسوٹی پر حدیث کو پرکھنے وغیرہ پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی ۔دور اخیر میں ہندوستان کے علماء مسلک حنفی کی تالیفات میں سے دو کتابیں یقیناً اس حکم سے مستثنیٰ ہیں ایک کتاب’’المحلی شرح الموطا‘‘مولفہ شیخ سلام اﷲ بن شیخ الاسلام دھلوی رامپوری (م ۱۲۲۹- یا -۱۲۳۳ھ)اور دوسری ’’آثار السنن والتعلیق الحسن علی آثار السنن ،مولفہ علامہ ظہیر حسن