نیموی بہاری (م ۱۳۲۹ھ )
اس کے برخلاف موصوف مولف کی یہ شرح حدیث سے اشتغال رکھنے والے اور فن حدیث کے ماہرین و اساتذہ اور ان کبار شارحین حدیث کے طرز و اسلوب پر لکھی گئی ہے،جن کی شرح حدیث کو مقبولیت عام حاصل ہوئی اور ہر دور میں طلبہ نے ان سے استفادہ کیا۔یہ کتاب اسماء رجال اور اصول حدیث کے قیمتی اور اہم مباحث پر مشتمل ہے ،مؤلف نے ہر بات مدلل ذکر کی ہے اور اکثر اوقات مؤلف صرف فن حدیث اور فن حدیث کے متعلقات پر کلام کرتے ہیں۔
مولف نے اس شرح میں اپنے شیخ ،محّدث جلیل حضرت شیخ مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہٗ کے ان افادات و تحقیقات سے جن کو حضرت گنگوہی کے ذکی نجیب شاگرد مولانا محمد یحییٰ کاندھلوی نے نوٹ کیا تھا۔فائدہ اٹھایا ہے،مؤلف کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ حتی الامکان راوی کی طرف خطا کی نسبت کرنے سے بچتے اور احتراز کرتے ہیں،اور اگر کہیں شارحین حدیث راوی کی خطا ثابت کرنے پر مجبور ہوتے ہیںتو مؤلف اسکی ایسی توجیہ کرتے ہیں جو دل کو لگتی ہے اور ہر انصاف پسند عقل اس کو قبول کرتی ہے مثلا وہ روایتیں جن میں انگوٹھی اتاردینے کا ذکر آیا ہے ،وہاں محدثین نے کہا ہے کہ امام زہری کو وہم ہوگیا ۔لیکن مؤلف بذل المجہود نے اس کی ایسی عمدہ توجیہ کی ہے جو قابل دید ہے ،یہ توجیہ حضرت گنگوہی کے کلام سے مستفاد ہے (دیکھئے کتاب الطہارۃ میں ’’باب الخاتم یکون فیہ ذکر اﷲ تعالیٰ)
اس شرح کی یہ خصوصیت ہے کہ بڑے لطیف استنباطات پر مشتمل ہے ،جنھیں پڑھنے والا جگہ جگہ کتاب میں منتشر پاتا ہے۔
’’مسألۃ القسامۃ‘‘مؤلف کے ان لطیف اور عمدہ مباحث میں سے ہے جسمیں مولف کی سلامت فکر ،اور کتب حدیث کے عمیق و وسیع مطالعہ کا پتہ چلتا ہے ،اور مسئلہ سے متعلق روایتوں کے اندر پایا جانے والا اختلاف بالکل زائل ہوجاتا ہے۔
احادیث الفتن و الملاحم بھی کتاب کے ان اہم مقامات اور قابل تعریف مباحث میں سے ہے جس میں مولف کی کوشش وکاوش،غورو خوض اور دقت نظر جلوہ گر ہوئی ہے۔مولف نے ان فتنوں کی تعیین کرنے کی کوشش کی ہے جن کا احادیث میں اشارۃً ذکر آیا ہے ،راجح حدیث کو معلوم کرنے اور اس کو ترجیح دینے میں بڑی محنت صرف کی ہے اور بعض فتنوں کی تعیین میں پورے غور و خوض اور احاطہ کے بعد اپنے اجتہاد سے کام لیا ہے ۔مثال کے طور پر حضرت ابو قتادہ کے کلام کی شرح دیکھی جاسکتی ہے۔
ایک حدیث کی شرح میں شریف مکہ حسین بن علی فتنہ کی طرف اشارہ کیاہے،(دیکھئے حدیث عبداﷲبن عمر رضی اﷲ عنہ’’ثم یصطلح الناس علی رجل کورک علی ضلع‘‘اس کو مولف نے بڑی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ لکھا ہے ان مواقع پر مولف کے کلام میں اپنی تحقیق پر اعتماد اور غور وخوض کے بعد نتیجہ پر یقین نظر آتا ہے ،وہ ان مواقع پر تواضع اور صراحت کرنے میں پس و پیش سے کام نہیں لیتے بلکہ قاری کے اندر بھی اعتماد ،یقین اور قطعیت پیدا کردیتے ہیں،یہ خصوصیت تعلیم کے طریقۂ کار اور تربیت کی حکمت و دانائی اور کسی شرح کے محاسن کا اظہار کرتی ہے۔