و شوق اور انہماک کے ساتھ تتبع و کتابت میں دلچسپی لی پورے نو سال کے بعد ۱۳۴۴ھ میں حضرت مولانا طویل قیام کے ارادہ سے حجاز روانہ ہوئے اور آپ کے ساتھ آپ کے فاضل شاگرد رشید مولانا محمد زکریا صاحب شیخ الحدیث بھی حجاز تشریف لے گئے حجاز کے قیام کے دوران انتقال سے دوماہ پہلے ۲۳ِشعبان ۱۳۴۵ھ میں اس مبارک شرح کا اختتام فرمایا ،شرح کی تکمیل پر علماء مدینہ اور احباب و حاضرین کی دعوت کا خصوصی طور پر انتظام فرمایا اور اس کے لئے عربی میں دعوت نامے جاری کئے ۔
حضرت مولانا نے بذل المجہود کی ترتیب،تصنیف و تالیف کا بڑا اہتمام فرمایا تھا ہندوستان کے قیام کے دوران بھی اور مدینہ منورہ زادھا اﷲ شرفا و کرامۃ کے قیام کے اثناء بھی اپنی قوت و صلاحیت کو اس عظیم کام میں لگا دیا تھا کہ آپ کے ذہن و دماغ پر یہ مسئلہ برابر ستولی رہا اور آپ نے اس میں اپنی پوری زندگی ختم کردی۔
مولانا عاشق الٰہی صاحب آپ کا معمول اس طرح لکھتے ہیں۔
’’۱۳۳۵ھ میں جب اس کا افتتاح ہوا تو اس کی تالیف کیلئے صرف ایک گھنٹہ روزانہ تھا مگر ۴۰ ھ میں صبح کا تمام وقت اس کی نذر ہوا اور شام کے وقت حضرت کے پاس ایک سبق رہا اسی درمیان میں اسفار پیش آئے اور حرج ،مرض کی وجہ سے ناغہ ہوجاتی اور اس کے ساتھ نظام مدرسہ و نگرانی شعبہ ہائے مختلفہ اور آمد و رفت مہمانان وغیرہ کے مشاغل علیہ بدستور قائم تھے مگر آستانہ محمدیہ پر پہنچ کر تو اس کے سوا آپ کو کوئی کام ہی نہ تھا کہ ڈاک بھی دسویں دن آتی تھی ادھرجگہ کی برکت او ر طبیعت کا انس و لگاؤ جدا لہذا طبیعت خوب چلی اور دو مہینے میں کتاب سوا سو صفحات کی شرح قلم سے نکلی ساتھ ہی ساتھ حضرت نے اسکو طبع کرانا شروع کردیا کہ خاص حضرات نے اس کی طباعت کے لئے رقم علیحدہ دی تھی اور حضرت نے اس رقم کو مدطباعت بذل میں جمع فرماکر کتاب مدرسہ کو دیدی کہ اس کا سارا نفع مظاہر علوم کو پہنچے۔(تذکرۃ الخلیل:۲۷۹۔۲۷۸)
کتاب کی تصنیف کے پورے دور میں حضرت مولانا اپنے شیخ ومرشد حضرت گنگوہیؒ اور اپنے عزیز دوست مولانا محمد یحییٰ صاحب کاندھلویؒ کو بڑی حسرت کے ساتھ یاد فرمایا کرتے تھے خصوصاً تصنیف کے دوران جب بھی کوئی مشکل دور آتا تو بیچین ہوکر فرماتے۔
’’حضرت گنگوہی کی حیات میں لکھی جاتی تو کس قدر سہولت ہوتی حضرت کے سامنے سب اشکال حل ہوجاتے کم از کم ہمارے مولوی صاحب (مولانا محمد یحییٰ ) ہی حیات ہوتے تو خوب بحث ہوا کرتی۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۲۸۰)
اب راقم سطور اختصار کے ساتھ اس شرح کی خصوصیت امتیازات اور حضرت مولانا نے جن چیزوں کا التزام کیا ہے اور جن پر خصوصی توجہ مرکوز کی ہے ان کے بارے میں چند باتیں نقل کرنا مناسب سمجھتا ہے اور یہ خصوصیات اور امتیازات مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی کے اس بسیط مقدمہ سے اخذ کئے جارہے ہیں جو اس شرح کے شروع میں تحریر فرمایا ہے۔
(۱)
مولف نے امام ابو داؤدمؤلف کتاب کے اقوال اور راویوں پر کلام اور حدیث سے متعلق توضیحی نوٹس کو بڑی اہمیت دی ہے اوراس