کاموں نے اس کی تکمیل کا بلکہ اس کے جاری رہنے کا بھی موقعہ نہیں دیا اس پر ایک مدت گزر گئی غالباً یکم ربیع الاول ۱۳۳۵ھ کا واقعہ ہے کہ حضرت مولانا جب مظاہر علوم کے دارالحدیث سے بخاری شریف کا درس دے کر مدرسہ قدیم تشریف لے جارہے تھے اور آپ کے پیچھے پیچھے آپ کے دو سعادت مند شاگرد چل رہے تھے جن میں ایک حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی اور دوسرے مولوی حسن(۱)احمد صاحب سہارنپوری تھے راستہ میں آپ رکے اور ان دونوں کی طرف متوجہ ہوکر ارشاد فرمایا ۔
(۱) مولوی حسن احمد مرحوم سہارنپور محلہ کھالہ پار کے رہنے والے تھے بڑے متین اور نیک تھے مولانا محمدیحییٰ صاحب کے بڑے معتقد تھے مولاناکے درس حدیث میں ان کی تقریر نقل کرتے بڑے جوان صالح اور شاب نشافی عبادۃ اللہ کے مصداق تھے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا صاحب کے درس میں ساتھی اور دوست تھے افسوس ہے کہ جوانی ہی میں انتقال ہوگیا۔
’’مجھے ہمیشہ سے یہ خیال ہے کہ ابوداؤد پر کچھ لکھوں کئی دفعہ شروع کرچکا مگر پورا نہیں ہوا اب یہ خیال ہے کہ اگر تم دونوں اعانت کرو تو شاید پوری ہوجاوے۔‘‘
(تذکرۃ الخلیل:۲۷۴)
حضرت مولانا کے اس ارشاد گرامی پر مولانا محمد زکریا صاحب نے عرض کیا کہ ہاں حضرت ضرور فرماویں اس کے بعد بولے حضرت یہ میری دعا کی قبولیت کا ثمرہ ہے۔
اس جملہ پر حضرت مولانا چونکے اور فرمایا یہ کیا؟
مولانا محمد زکریا صاحب نے اس پر عرض کیا۔
’’والد صاحب نے مجھ سے مشکوٰۃ شریف شروع فرمائی تو بڑے اہتمام سے غسل فرما کر دو رکعت نفل پڑھ کر شروع کرائی اور بسم اﷲ پڑھانے کے بعد دیر تک قبلہ رو طویل دعا مانگی تھی اس کا تو مجھے علم نہیں کہ انھوں نے کیا دعا مانگی مگر میں نے اس وقت یہ دعا دیر تک کی تھی کہ بارالٰہا اب مجھے حدیث شریف کا مشغلہ ترک نہ ہو میں اپنی اس دعا کو از قبیل محالات سمجھ رہا تھا کیونکہ مدارس کا طرز یہی ہے کہ فارغ شدہ طالب علم کو درجہ بدرجہ کتابوں کا پڑھانا ہوتا ہے اور برسوں کے بعد حدیث کا سبق مل جاتا پس مراد پوری ہونے کی صورت تو سمجھ میں آتی نہ تھی مگر دعا یہی کرتا تھا کہ سواس سے بہتر کیا کہ حضرت شرح ابی داؤد شروع فرمادیں اور میں کتابوں کی تلاش اور تتبع اقوال و معانی میں لگا رہوں ۔‘‘
اپنے شاگرد رشید کی یہ دعا اور تمنا کو سن کر حضرت مولانا کو جو خوشی ہوئی وہ ظاہر ہے آپ یہ سن کر مسکرا دئیے اور بلا تاخیر کتابوں کی فہر ست لکھائی اور فرمایا کہ ان کو کتب خانہ سے نکلوالو۔
۲ربیع الاول ۱۳۳۵ھ کو حضرت مولانا کے حسب ارشاد کتابیں نکالی گئیں اور دوسرے یا تیسرے دن اس مبارک شرح کی ابتداء ہوگئی ،جس کی تفصیل آپ بیتی حضرت شیخ میں دیکھی جاسکتی ہے ۔حضرت مولانا کا یہ دور ضعیفی کا دور تھا عمر کی چوسٹھویں منزل تھی ہاتھوں میں رعشہ تھا اور اعصاب مضمحل۔
دونوں شاگردوں نے حضرت مولانا کی اعانت کی خصوصاً مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی شیخ الحدیث مدظلہ العالی نے پوے ذوق