چھوٹے بڑے ہونے کی نسبت کا ذکر بھی ایک درجہ میں ادعاء ر ہے علم و عمل کا مگر مولانا کا برتاؤ مساویانہ تو یقینی ہی تھا بعض اوقات ایسا برتاؤ فرماتے تھے کہ جیسے چھوٹے کرتے ہیں بڑوں کے ساتھ اس سے زیادہ کیا درجہ ہوگا تواضع کا۔‘‘(خوان خلیل:۶)
اس کے آگے حکیم الامت حضرت مولانا سے اپنے تعلق و محبت اور عقیدت و احترام کا ذکر اس طرح کرتے ہیں۔
۱۔مولانا نے اپنے ایک معتقد خاص سے فرمایا تھا کہ مجھ کو اشرف سے اس وقت سے محبت ہے جس وقت اس کو خبر بھی نہ تھی۔(خوان خلیل:۷)
۲۔باوجود میرے کم مرتبہ ہونے کہ گاہ گاہ مجھ کو ہدایا سے بھی مشرف فرمایا ہے۔
(خوان خلیل:۷)
۳۔’’گاہ گاہ غریب خانہ کو بھی اپنے اقدام سے مشرف فرماتے تھے مجھ کو یاد ہے کہ غالباً جب اول بار تشریف آوری ہوئی تو احقر نے جوش محبت میں کھانے میں کسی قدر تکلف بھی کیا اور اہل قصبہ میں سے بھی بعض عمائد کو مدعو کردیا کہ عرفاً یہ بھی معزز ضعیف کا اکرام ہے(ان بعض عمائد نے میری اس خدمت کا یہ حق ادا کیاکہ بعد جلسہ دعوت کہ مجھ کو بدنام کیا کہ طالب علم ہوکر اتنا تکلف کیا پانچ چھ کھانے والوں کے سامنے بہتر یا باسٹھ برتن تھے میں عدد بھول گیا کہ کون سا فرمایا تھا اس روایت کے قبل مجھ کو تکلف کے مقدار کی طرف التفات بھی نہ ہوا تھا)مولانا نے مزاحافرمایا کہ یہ تکلف کیوں کیا گیا میں نے عرض کیا کہ اس کا سبب خود حضرت ہی ہیں اگر بکثرت کرم فرماتے تو ہرگز تکلف نہ کرنا یہ تقلیل سبب ہے اس تکثیر کا اس کے بعد آمد کی تکثیر ہوگئی اور تکلف کی تقلیل۔‘‘ (خوان خلیل:۸۔۷)
جس طرح حکیم الامت کو حضرت مولانا سے کمال درجہ کی عقیدت تھی اسی طرح حضرت مولانا کو حکیم الامت سے محبت تھی اس سلسلہ کا یک عجیب واقعہ ہے وہ یہ کہ بعض لوگوں نے حکیم الامت کے خلاف بعض غلط روایتیں مشہور کرکے حضرت مولانا تک پہنچادیں حکیم الامت کو جب اس کا علم ہوا تو بہت پریشان ہوئے اور اس خیال سے کہ حضرت مولانا کے دل میں کوئی تکدر نہ پیدا ہو حقیقت حال سے مطلع کیا حضرت مولانا نے حکیم الامت کو حسب ذیل جواب مرحمت فرمایا۔
’’معلوم نہیں لوگوں کو کیا مزہ آتا ہے غلط روایتیں پہنچا کر اہل خیر کے قلوب کو دکھاتے ہیں مجھ ناچیز کو جو تعلق اور محبت تھی عقیدت بحمدﷲ موجود ہے
آں نیست کہ حافظ رامہرت روداز خاطر
آں وعدہ پیشینش تاروز پسیں باشد
جو قلبی محبت اور جس کو ذخیرہ آخرت سمجھ رکھا ہو وہ انشاء اﷲ تعالیٰ بدل نہیں سکتی جو روایتیں پہونچی ہیں ان میں مبالغہ سے بہت کام لیا گیا انتہی۔(خوان خلیل:۹)
حکیم الامت حضرت مولانا کے علم و فضل ،تواضع و سادگی اور دوسرے صفات کے بہت قائل تھے اور مختلف موقعوں پر ان صفات