شیخ الہند نے فرمایا۔۔۔اچھا مگر اس شرط پر کہ تم موجود نہ ہو۔
حضرت مولانا بولے ۔۔۔بہت اچھا مجھ سے اتنی وحشت ہے تو میں بعد نماز چلا آؤں گا میری وجہ سے صدہا لوگ کیوں محروم رہیں۔
شیخ الہند اس پر مسکرادئیے اور حضرت مولانا نے لوگوں سے کہدیا کہ جائیے درخواست منظور ہے اور بعد نماز ظہر مولانا کا بیان ہوگا۔
بعد نماز ظہر جب شیخ الہند سے عرض کیا گیا کہ ممبر پر تشریف رکھیں تو اٹھے نہیں جب حضرت مولانا سنتیں پڑھ کر قیام گاہ چلے گئے تو بیچ کے در میں بیٹھ کر بیان شروع کیا اور وہ وعظ کہا سارے حاضرین دم بخود ہوگئے ،تاثر کا یہ عالم تھا کہ ہر دل میں حلاوت پیدا ہوگئی اور آنکھیں نم ہوگئیں ،حضرت مولانا کچھ دیر قیام گاہ پر رہے پھر خاموشی سے آکر شیخ الہند کے پیچھے بیٹھ گئے وعظ ختم ہوا اور حضرت مولانا فوراً اٹھ کر پیچھے سے قیام گاہ پہنچ گئے دوسرے وقت حضرت مولانا نے شیخ الہند سے فرمایا۔
’’تم نے تو بہتیرا چاہا کہ سب وعظ سنیں مگر خلیل احمد نہ سنے لیکن ہم نے سن ہی لیا۔‘‘
شیخ الہند نے فرمایا۔۔۔کس طرح ؟
حضرت مولانا بولے ۔۔۔۔ہم بھی تمھارے پس پشت ایک گوشہ میں آبیٹھے۔
شیخ الہند نے فرمایا۔۔۔پشت پناہ بننے کے لئے تم آئے کدھر سے اور وعدہ کرنے کے بعد خلاف کیسے کیا؟
حضرت مولانا نے فرمایا۔۔۔میں نے تو یہی کہا تھا کہ نماز کے بعد چلا آؤں گا،اور آخر اس کی کوئی وجہ بھی ہے کہ عمر بھر میں ایک وعظ ہو اور وہی ہمارے کانوں میں نہ پڑے‘‘۔
(خلاصہ ازتذکرۃ الخلیل:۱۶۵۔۱۶۶)
شیخ الہند ہمیشہ مظاہر علوم کے سالانہ جلسہ میں شرکت فرماتے تھے اور حضرت مولانا کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے اور انتہائی بے تکلفی کا معاملہ فرماتے تھے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب دام لطفہ تحریر کرتے ہیں۔
’’شوال ۳۳ ھ سے پہلے مظاہر کے جلسہ میں ہر سال حضرت شیخ الہند ،اعلیٰ حضرت رائے پوری اور حضرت تھانوی تینوں حضرات کی حضرت سہارنپوری قدس سرہٗ کی خدمت میں تشریف آوری کا منظر بھی خوب دیکھا،اس مجلس میں مجمع تو بہت بڑا ہوجاتا تھا لیکن یہ چاروں اکابر ممتاز جگہ پر ایک ہی مقام پرتشریف فرما ہوتے،اس میں حضرت شیخ الہند اور حضرت سہارنپوری کی نشست تو بہت مساویانہ ہوتی تھی اور گفتگو بھی بہت مساویانہ ہوتی تھی ،زیادہ ادب و احترام نہیں ہوتا تھا ،اعلیٰ حضرت اقدس رائے پوری اور حضرت اقدس تھانوی کی نشست ان دونوں حضرات کے سامنے مؤدبانہ ہوتی تھی اور گفتگو بھی بہت مؤدبانہ،حضرت شیخ الہند قدس سرہٗ کی تشریف آوری حجاز کے یکسالہ سفر سے پہلے جلسہ کے علاوہ بھی کبھی کبھی ہوتی رہتی تھی۔‘‘(آپ بیتی ۴/۲۹۔۳۰)
۱۳۳۳ھ کے حج سے پہلے مظاہر علوم میں وہ مشورہ ہوا جس کا ذکر پہلے آچکا ہے کہ اس مشورہ میں صرف چار آدمی تھے (۱)حضرت شیخ الہند (۲)حضرت مولانا خلیل احمد صاحب(۳)حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری(۴)حافظ احمد صاحب رامپوری اس مشورہ