حضرت مولانا رائے پوریؒ کا جب انتقال ہوا تو حضرت مولانا ایک خواب دیکھ کر پہونچ گئے جب آخری وقت آیا تو حضرت مولانا قریب پہنچے مولانا رائے پوری نے محبت بھری نگاہ ڈالی اور حضرت مولانا کا ہاتھ تھام کر اپنے سینے پر رکھ لیا اور اسکے بعد ہی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔
مولانا رائے پوری کی طبیعت بہت ناساز تھی کروٹ لینا بھی دشوار تھا اسی حالت میں حج کا شوق پیدا ہوا اور کسی طرح بھی حج کرنے کا جذبہ طاری ہوا مولانا عاشق الٰہی صاحب ملنے کو گئے تو فرمایا۔
’’اب حضرت سہارنپوری کا میرے بزرگوں میں ایک دم باقی ہے جن کے حکم کے سامنے کوئی چوں و چرا کی ہمت نہیں اس کا سہم چڑھا ہوا ہے کہ حضرت نے اجازت نہ دی اور منع فرمایا تو پھر کیا کروں گا بس یہ خدمت تیرے سپرد ہے کہ حضرت سے بخوشی اجازت دلوادے۔‘‘(ایضا:۲۶۶)
اور جب مولانا میرٹھی نے اجازت دلوانے ایک وعدہ کرلیا تو اتنے زیادہ خوش ہوئے کہ فرحت و سرور سے چہرہ چمکنے لگااور ’’الحمدﷲ اب اطمینان ہوگیا‘‘کہتے ہوئے اٹھ بیٹھے جیسے کوئی تکلیف نہ ہو۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب دام لطفہ ارشاد فرماتے ہیں۔
’’حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب نے کسی موقع پر فرمایا تھا کہ سیاسیات میں جو کچھ مراجعت کرنی ہو حضرت شیخ الہندکی طرف کی جائے مگر سلوک میں حضرت سہارنپوری کی طرف میں نے حضرت کو اس لائن میں بہت اونچا پایا ہے ۔‘‘
(سوانح حضرت مولانا عبدالقادر رائپوری:۸۰)
مولانا عاشق الٰہی صاحب لکھتے ہیں:
’’دونوں حضرات کی باہمی مخلصانہ محبت اتنی متعدی ہوچکی تھی کہ ان کے متوسلین ان کو گویا شیخ ہی سمجھتے تھے اور ان کے متعلقین ان کو پیر کے حکم میں مانتے تھے ،حضرت مولانا رائے پوری کے اس رنگ کو میں نے بارہا غور سے دیکھا کہ حضرت کے تشریف رکھتے ہوئے کوئی صاحب آتے اور مصافحہ کرنے کے لئے مولانا کی طرف بڑھتے تو حضرت مولانا اپنے ہاتھ سمیٹ لیتے اور حضرت کی طرف اشارہ کر کے ان کو تنبیہ فرماتے کہ گستاخ نہ بنو پہلے حضرت سے مصافحہ کرو کہ اقدام و افضل ہیں۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۲۶۹)
حضرت مولانا اکثر رائے پور تشریف لے جاتے اور مولانا رائے پوری سہارنپور آتے وہ دن جب دونوں اکھٹا ہوتے روز عید ہوتا دونوں خوشی و مسرت میں ڈوب جاتے دوشیخوں میں ایسی محبت و یگانگت بہت کم دیکھنے میں آئی ہے۔
مولانا رائے پوری کے مرض الوفات میں حضرت مولانا نے کسی کو بھیج کر کہلوایا کہ آپ نے اپنے بعد کیا انتطام کیا ہے،مولانا نے مدرسہ کے وقف اور اسکی جائداد وغیرہ کے متعلق جو انتظامات کئے تھے انکا ذکر فرمایا ،حضرت مولانا نے فرمایا کہ میں ان چیزوں کو نہیں پوچھتا اپنے کام کے متعلق کیاکیا؟مولانا نے اپنے خلفاء میں سے تین صاحبوں (۱)مولانا اﷲ بخش بھاولنگری(۲)منشی رحمت علی صاحب جالندھری(۳)مولانا عبدالقادر صاھب رائے پوری کانام لیا۔