درگور برم از سر گیسوئے تو تارے
تا سایہ کند برسرمن روز قیامت
(تذکرۃ الرشیددوم:۱۵۴)
(ترجمہ)تیرے گیسو کا ایک بال قبر میں لے جاؤں تاکہ مجھ پر قیامت میں سایہ کرے۔‘‘
حضرت مولانا جہاں بھی ہوتے اپنے مکاتیب عالیہ سے انکو حضرت گنگوہی نوازتے رہتے اور ان کی خیریت برابر دریافت کرتے رہتے ان کو یاد کرتے اور چاہتے کہ جلد جلد آئیں اور ملاقات کریں کوئی شخص بھی سہارنپور سے گنگوہ جاتا تو سب سے پہلے حضرت مولانا کو پوچھتے اور ان کی خیریت دریافت کرتے،مولانا عاشق الٰہی صاحب تحریر کرتے ہیں:
’’اعلی حضرت کو آپ کے ساتھ محبت زیادہ تھی کہ جو مہمان برائے سہارنپور آتا اس سے پوچھا کرتے کہ خلیل احمد اچھی طرح ہیں اور ان سے بھی مل کر آئے یا نہیں؟
(تذکرۃ الخلیل: ۹۰)
اور اگر کوئی مل کر نہ آتا تو ناراضگی کا اظہار فرماتے اور آنے والے کے اس طرز عمل پر نکیر فرماتے اور آئندہ مل کر آنے پر زور دیتے تھے۔
حضرت مولانا جب تک دوسرے شہروں میں رہے اور حضرت گنگوہی ان کو خط بھیجتے رہے تو بغیر ٹکٹ لگائے خطوط بھیجتے تھے تاکہ حضرت مولانا کو یقینی طور پر مل جائیں اور دوسرے کے ہاتھوں میں نہ پڑیں۔
اسی طرح حضرت مولانا کو اپنے شیخ و مرشد حضرت گنگوہی سے تو اتنی زیادہ محبت و تعلق تھا کہ قدم قدم پر وہ ظاہر ہوتا تھا گزشتہ اوراق میں اس محبت و تعلق کے کئی واقعات آپ پڑھ چکے ہیں حضرت سے محبت کی وجہ سے حضرت کی اولاد حضرت کے گھر والوں حتیٰ کہ گنگوہ کے رہنے والوں سے محبت ہوگئی تھی اور عقیدت و احترام کا جذبہ کارفرما رہتا تھا حضرت گنگوہی کے انتقال پر جن جذبات کا آپ نے اظہار کیا وہ آپ کے انتہائی تعلق کا پتہ دیتے ہیں ایک صاحب کے خط کا جواب دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں۔
’’خدام حضرت میں مجھ روسیاہ سے زیادہ کوئی بھی نالائق نہ ہوگا،بتیس سال کا عرصہ حضور کی خدمت و حیات کا گزرا اور کچھ نہ کیا کیا خبر تھی کہ یہ روز سیاہ دیکھنا پڑے گا کیا معلوم تھا کہ حضرت عالم قدس کو رخصت ہوجائیں گے اور میں تباہ کار آپ کے بعد دنیا میں بیٹھا رہوں گا فانا اﷲ وانا الیہ راجعون وصبر جمیل۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۸۶)
ایک دوسرے خط میں تحریر کرتے ہیں۔
حضرت رحمۃ اﷲ علیہ کی رحلت نے کمر توڑ دی میں تو دل سے کہتا ہوں
سنے کون ہائے صدائے دل ملے کس سے آہ شفائے دل
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھاگئے