بغیر پتہ کے منی آرڈر آنا یہ بھی بتلا رہا ہے کہ رقم خفیہ ذرائع سے آئی ہے اور سی۔آئی۔ڈی کے طریق کار ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر آپ نے سی۔آئی۔اے کے کارنامے پڑھے ہوںتو بالکل واضح ہو جائے گا کہ وہ اسی طرح جاسوسوں کو رقم عموماً ادا کرتی ہے۔ البتہ مرزاقادیانی اس کو غیبی امداد ظاہر فرماتے تھے۔
آج کل بھی سی۔آئی۔اے اسی طرح ادائیگی کرتی ہے۔ کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔ جاسوسی کے لئے عموماً ایسے لوگ منتخب ہوتے ہیں جو حکومت کے بااعتماد ہوں اور لوگ بھی ان کے تقدس کے قائل ہوں یا لوگوں میں ذی جاہ اور شہرت یافتہ ہوں تاکہ ان پر کوئی شبہ نہ کر سکیں۔
یہ ہیں مرزاقادیانی کے نشانات۔ ان ہی نشانوں نے حقیقت میں مرزاقادیانی کی ہنڈیا چوراہے میں پھوڑ دی۔ کیونکہ طبعاً لالچی واقع ہوتے تھے۔ اس لئے جب بھی روپیہ آنے کی اطلاع ملتی، ایک تیر سے دو شکار کر لیتے۔ اعلان کر دیتے تھے منی آرڈر کا خواب آیا۔ روپیہ ملنے کا خواب آیا۔ ظاہر ہے پہلے اطلاع مل جاتی تھی۔ لہٰذا صحیح وقت پر روپیہ مل جاتا تو مرزاقادیانی کی پانچوں گھی میں ہوتیں۔ اگرچہ میں دوسرا جملہ نہیں کہتا۔ (یعنی سرکڑھائی میں)
مرزاقادیانی نے صرف ممانعت جہاد ہی کے لئے کتابیں نہیں لکھیں۔ بلکہ ایسے لوگوں کے نام بھی قلم بند کئے ہیں۔ جن سے گورنمنٹ برطانیہ کو خطرہ لاحق رہتا تھا۔ جس کا اعتراف مرزاقادیانی نے خود کیا ہے۔
مرزاقادیانی انگریزوں کے پولٹیکل ایجنٹ کی حیثیت سے
(تبلیغ رسالت ج۵ ص۱۱، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۲۲۷) پر یوں درج ہے: ’’گورنمنٹ کی خوش قسمتی سے برٹش انڈیا میں مسلمانوں میں ایسے لوگ معلوم ہو سکتے ہیں۔ جن کے نہایت مخفی ارادے گورنمنٹ کے برخلاف ہیں۔ اس لئے ہم نے اپنی محسن گورنمنٹ کی پولٹیکل خیرخواہی کی نیت سے اس مبارک تقریب پر یہ چاہا کہ جہاں تک ممکن ہو ان شریر لوگوں کے نام ضبط کئے جائیں جو اپنے عقیدہ سے اپنی مفسدانہ حالت کو ثابت کرتے ہیں۔ ایسے نقشے ایک پولٹیکل راز کی طرح اس وقت تک ہمارے پاس محفوظ رہیں گے۔ جب تک گورنمنٹ ہم سے طلب نہ کرے۔‘‘
مندرجہ بالا عبارت دیکھنے کے بعد کسی بھی سیاسی بصیرت رکھنے والے کو مرزاقادیانی کے پولٹیکل ایجنٹ ہونے میں شک نہیں ہوسکتا۔ جو مسلمانان ہند کے خلاف خفیہ ڈائریاں انگریزوں تک پہنچاتا تھا۔ بلکہ اس شعبہ کا مرزاقادیانی کو انچارج کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ کیونکہ