باب۲۲ بست و دوم
پسرموعود کی موت
دیروز چناں وصال دل افروزی
امروز چنین فراق عالم سوزی
افسوس کہ بردفتر عمرت ایام
ایں راروزی نولیبدو آن راروزی
رات کا وقت ہے۔ آندھی چل رہی ہے۔ ہوا کا وہ زور ہے کہ پائوں اکھاڑے دیتی ہے۔ ہوش اڑے جاتے ہیں۔ گردو غبار آنکھیں نہیں کھولنے دیتا۔ اندھیرا ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ مارا نظر نہیں آتا۔ تاریکی نے سیاہی بخت عشاق کی طرح دنیا کو سیاہ کر رکھا ہے کوئی بھولا بچھڑا ادھر راستہ میں بھٹکتا پھرتا ہے۔ راستہ نظر نہیں آتا۔ تن آور درختوں سے ٹکر کھاتا ہے۔
ایک گھر کے کمرہ کے دوسرے درجہ میں چراغ روشن ہے مگر وہاں بھی ہوا ٹھہرنے نہیں دیتی۔ ٹم ٹم کرتا ہے کیواڑہیں کہ دروازہ سے لگ کر کھڑکتے ہیں۔ جیسا کوئی دکھیا ماں اپنے اکلوتے بچہ کے ماتم میں سینہ کوٹتی ہے۔ یا نامراد بوڑھا باپ ضعیفی کی عمر میں اس بچہ کی مرگ پر جس کی موت نے تمام آرزئوں کا خون کردیا ہو سر پیٹتا ہے۔ مکان کے اندر ایک چارپائی کے اوپر ایک بیمار پڑا ہے۔ اس کے سرہانے خاتوں نو عمر غمگین اور ایک مرد مسن اداس صورت بنائے بیٹھے ہیں۔ چند خادمہ ادھر ادھر گھبرائی ہوئی پھر رہی ہیں۔
یہ کون بیمار ہے۔ یہ تو کوئی برس ڈیڑھ برس کا بچہ ہے۔ آنکھیں بند کیے پڑا ہے۔ ہونٹوں پر پیڑیاں جم گئیں ہیں۔ زبانوں پر کانٹے کھڑے ہیں۔
بچہ (بیمار) کبھی آنکھ کھول کر حسرت بھری نظروں سے ماں کے منہ کو دیکھ لیتا ہے۔ پھر بند کرلیتا ہے۔
ان آنکھوں کو دوپٹہ سے پونچھ کر سر کو جھکا کر میاں میان بشیر۔ جواب سے مایوس ہو کر اور حسرت کے لہجہ میں یا اللہ رحم کر۔
باپ مایوسی کی حالت میں بچہ کے ہونٹوں کو ہاتھ لگا کر کیسے خشک ہوگئے ہیں۔ کچھ پڑھ کر چھو۔ بیوی… (بچہ کی ماں) کیا امید ہے آنسو پونچھ کر اس سے تو خدا نہ دیتا تو اچھا تھا۔ یا اللہ ہم سے تو یہ تکلیف نہیں دیکھی جاتی۔ جو کچھ کرنا ہے کہ اس بچہ کی مشکل آسان کر۔