مہنت جی کی سواری کا بڑے جلوس کے ساتھ تمام قصبہ کے بڑے بڑے گلی کوچہ کا گشت کرایا۔
سفیر ہند کے کسی نامہ نگار نے پادری رجب علی اڈیٹر اخبار مذکور کو اس کا پرچہ دیا۔ مفصل کیفیت اس اخبار مذکور میں شائع ہوئی۔
چندنہر کے بابوئوں نے اڈیٹر اخبار پر غلط بیانی کا مقدمہ دائر کیا۔ ایک عرصہ اس کی تاریخیں پڑتی رہیں۔
مہنت صاحب کچھ دن اس باغ میں رونق افروز رہے۔ لنگر بدستور جاری رہا مگر آخر ہوا اکھڑ گئی۔ پھر وہی بے آبروئی نصیب ہوئی۔
باب۶ ششم
مولانا محمد حسین بٹالوی کے حضور میں
دل کو ہمارے سینہ میں ایک دم نہیں قرار
یہ وہ غریب ہے کہ مسافر وطن میں ہے
دوپہر کا وقت ہے۔ جیٹھ اساڑھ کی دھوپ کی چیل انڈا چھوڑتی ہے۔ درختوں کے پتوں میں پرندے منہ چھپائے بیٹھے ہیں۔ لوکی پتھڑی منہ پھیرے دیتی ہے۔ بدن جھب جاتا ہے۔ چار پائے گرمی کے مارے زبان نکالے ہانپ رہے ہیں۔ درندہ گڑھوں میں زبان نکالے کانپ رہے ہیں۔ آدمی کیا حیوان بھی دم چراتے ہیں کوسوں کیا منزلوں انسان یا حیوان کا سایہ نظر نہیں آتا۔ بے مارے مرئے جاتے ہیں گھر میں بیٹھے العطش العطش کا شور ہے۔ پنکھا ہاتھ سے نہیں چھٹتا۔ پسینا ہے کہ اشک عشاق کی طرح جاری ہے سانس بند ہوا جاتا ہے۔ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ الامان الحفیط کا کلمہ جاری ہے۔ زبان پر کانٹے کھڑے ہیں۔ تقریر سے عاری ہے۔ انسان کیا پرندوں کے پر جلتے ہیں۔ پیک خیال قدم نہیں اُٹھاتا۔ قصد رفتار سے چھالے پڑتے ہیں۔
ہیں یہ وقت اور سفر یہ یکہ کیسا آ رہا ہے۔ اللہم احفظنا کچی سڑک اور یہ دھوپ اور ایک مریل ٹٹو مشکی رنگ کا جوتا یکہ والا پیادہ پاہاں ہاں ٹخ ٹخ شٹروپ سانٹا لگا کر ہانکتا ہوا چادر سے منہ چھپائے آ رہا ہے۔ گھوڑا زبان نکالے کتے کی طرح ہونک رہا ہے۔ پسینے میں خوں خوں کرتا دو قدم چلتا ہے۔ اور گھٹنے ٹیک کر بیٹھ جاتا ہے۔