باب۱۱ یاز دہم
قادیان کا لنگرخانہ
نہ مثل کہتے تھے ہر چند بڑے اور چھوٹے
کہ برستا نہیں وہ جو کہ بہت سا گرجے
پر یہاں دیکھا تو وہ صاف ہی جھوٹی نکلی
رات بھرنالہ کئے ہم نے تو دن بھراوئے
جس طرح شام سے گرجے تھے سحر تک برسے
اب مرزا صاحب کے دربار میں لالہ شرم پت رائے اور لالہ ملادامل صاحب ہندو آریہ شہادت الہام کے واسطے موجود۔ اور منشی شام لعل۔ روزنامچہ نویس جو روز مرہ کے الہام تحریر کرتا ہے۔ اور اس پر اس کے دستخط ہوتے ہیں ملازم ہے۔ مریدوں کا بھی جم گٹھا ہو گیا ہے۔ اور خوشامدی مفت خورے قورمہ پلائو کھانے والے ہاں میں ہاں ملانے والے پر کا کوّ ابنانے والے بھی جمع ہو گئے ہیں۔
لنگر جاری ہے کہ آیا، گیا، بے تکلف مرزا صاحب کے باورچی خانہ سے کھانا کھائے۔ لوگوں کی آمد و رفت ہو گئی ہے کوئی کھانے کا صدائے عام سن کر آتا ہے کوئی حاجت مند دعا کے واسطے آتا ہے۔ مرزا صاحب کے حکیم ہونے میں تو کوئی کلام ہی نہیں حکیم ابن حکیم ہیں کوئی دوا کو کوئی دعا کو آتا ہے۔ مہم اور مستجاب الدعوات اشتہاروں اور شہادتوں نے نزدیک و دور مشہور کر دیا ہے۔ کوئی آئندہ حالات کا استفسار کرتا ہے۔ غرض نذر نیاز اور چڑھا وہ بھی چڑھنے لگ گیا ہے۔ صبح شام دربار ہوتا ہے۔
۱… مصاحب: پیرو مرشد عاجز نے بڈھے بڈھے بزرگوں اور صوفیوں اور درویشوں کی صحبت اٹھائی ہے۔ خدا کی قسم یہ بات یہ تاثیر یہ کیفیت یہ برکت کہیں بھی نہیں سبحان اللہ و بحمدہ یہاں در و دیوار سے نور ہی نور برستا ہے۔
۲… جناب میں مدتوں اجمیر شریف میں خواجہ بزرگ کی بارگاہ میں رہا ہوں اچھے اچھے بزرگ اور درویش کامل صاحب کرامت رہتے ہیں۔ مگر یہ بات کسی میں بھی نہیں حضرت میں تو آپ سے بیعت ہونا چاہتا ہوں۔ مجھ کو مرید بنا لیجیے۔ سب سے اول بندہ ہے۔
مرزا صاحب… ابھی ہمیں کس کو دست بیع کرنے کا حکم نہیں ہوا جب تک اس بارہ میں کوئی الہام نہ ہو۔ صبر چاہیے۔ حاضرین… ہم لوگوں کا شوق اب صبر کی رخصت نہیں دیتا۔