’’میری یہ خواہش نہیں ہے کہ کوئی شخص گو وہ میرا کیسا ہی دوست ہو میرے خیالات کی پیروی کرے۔ میں رسولوں کے سوا کسی شخص کا ایسا منصب نہیں سمجھتا کہ (ان باتوں میں جو خدا اور بندوں میں دلی و روحانی امور سے متعلق ہیں اور جس کو مذہب کہتے ہیں) وہ یہ خواہش کرے۔ کہ لوگ اس کی پیروی کریں یہ منصب تو رسولوں کا تھا۔ اور آخر کو جناب رسول خدا محمد مصطفی ﷺ پر جن کا ازلی مذہب خدا ابد آباد تک قائم رکھے اور ضرور قائم رکھے گا۔‘‘ (کیونکہ جب وہ ازلی ہے ابدی بھی ہے) …… دیکھو سفر نامہ پنجاب میں لیکچر اسلام)
الغرض اس بہی خواہ اسلام اور دلی ہمدرد قوم کی بیش بہا اسلامی اور لاثانی خدمات کے حیرت انگیز اور تعجب خیز کارنامے خطاب احمدیہ۔ تہذیب الاخلاق، تفسیر القرآن وغیرہ کے لباس میں ہیں سب اس کے ساتھی موجود ہیں۔ جس کا جی چاہے دیکھ لے اور اپنی رائے قائم کرکے خذ ما صفا ودع ماکدر پر عمل کرے۔ آہا حکیم صاحب بھی پھر رہے ہیں۔ غالباً یہ بھی وہیں جاتے ہیں۔ چلو ملاقات کریں۔
حاجی صاحب… میری ملاقات تو ہے نہیں۔ خواہ مخواہ مخل اوقات ہونا پسند نہیں کرتا۔
جنٹل مین… اچھا تو میں جاتا ہوں اور چند قدم حکیم صاحب کی طرف چل کر السلام علیکم۔
حکیم صاحب… وعلیکم السلام شاہ صاحب مزاج شریف کس طرف کا عزم بالجزم ہے۔
شاہ صاحب… (جنٹل مین) جلسہ حمایت اسلام میں جائوں گا۔ آپ کہاں تشریف لے جائیں گے۔
حکیم صاحب… میں بھی وہیں جاتا ہوں خوب ہوا ساتھ ہوگیا مولوی صاحب نہیں آئے۔
شاہ صاحب… علی گڑھ کالج کے واسطے جو چندہ جمع کیا گیا تھا۔ اکثر احباب پر باقی ہے۔ اس کے وصول کی وجہ سے وہ آج نہیں آسکے غالباً کل یا شام کی ریل میں وہ بھی تشریف لے آئیں۔
حکیم صاحب… خوب اللہ تعالیٰ جزاء خیر دے مولوی صاحب کا بھی دم غنیمت ہے۔ ان کو بھی آپ کی طرح اس معاملہ میں نہایت دلچسپی ہے اور ایسا ہی چاہیے قومی ہمدردی کے یہی معنے ہیں۔
اتنے میں ریل نے سیٹی دی اور سب اپنا اپنا اسباب اٹھا کر سوار ہوگئے۔ اور ریل روانہ ہوئی۔
باب۱۹ نہدہم
مہدیوں اورمسیحوں کا ڈربہ کھل گیا
لیجیے ملک جاوا میں ایک اور مہدی صاحب عالم بالا سے تشریف کا گھٹا کاندھے پر لاد کر کھٹ سے آ پہنچے ہیں۔ اور دنیا کو اپنی مہدویت کی دعوت دیتے ہیں۔ اور شعبدے (معجزے)