ملک میں وبا پھیلے کہہ دے کہ مجھ پر تو پہلے ہی انکشاف ہوچکا ہے کہ جو لوگ مجھے آزمائیں گے ضرور وبا سے ہلاک ہوں گے۔ ہر ایک مومن کا اس پر یقین اور اعتقاد ہے کہ قرآن شریف سے بڑھ کر کوئی بشارت دینے والا نہیں۔ خواہ ولی ہو یا غوث ہو یا قطب ہو جو مرزا جی کے نزدیک انبیاء ناقص میں داخل ہیں۔ کیونکہ کامل نبوت ان کے نزدیک بھی ختم ہوچکی ہے۔
حدیث میں ختم نبوت کی طرف اشارہ ہے نہ کہ بقاء نبوت کی جانب۔ یعنے نبوت باقی نہیں رہی صرف آیات و احادیث باقی رہ گئیں جو مومنوں کو بشارت دینے والی ہیں۔ ذرا یہ بھی غور سے دیکھنا چاہیے کہ حدیث میں لفظ نبوت وارد ہوا ہے یعنے یوں نہیں فرمایا کہ لم یبق من الانبیاء الا المبشرون لفظ انبیا اور نبوت میں بڑا فرق ہے نبوت کے لفظ سے مرزا جی کا تھم اکھڑتا ہے ہاں نبوت و ابوت کا منارہ ضرور نصیب ہوتا ہے۔
پھر اس حدیث میں المبشرات صفت ہے جس کا موصوف مقدر ہے۔ ہم نے تو موصوف بیان کر دیا کہ الآیات المبشرات یا الاحکام المبشرات ذرا امروہی صاحب ہی اپنے دعوے کے موافق موصوف بیان کریں خدا نے چاہا تو بھاگتے راہ نہ ملے گی۔ مجدد کے سامنے منہ کھولنا آسان نہیں۔ (ایڈیٹر) (ضمیمہ اخبار شحنہ ہند مطبوعہ ۲۴ دسمبر ۱۹۰۳ئ)
حاشیہ جات
۱؎ (ایام الصلح) الہام ہوا ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی نے جری اللہ فی حلل الانبیاء اس الہام میں میرا نام رسول بھی رکھا گیا اور نبی بھی۔ پس جس شخص کے خود خدا نے یہ نام رکھے ہوں اس کو عوام میں سمجھنا کمال درجہ کی شوخی ہے۔
باب۳۷ سی و ہفتم
مباحثہ مرزا صاحب قادیانی اور مسٹر عبد اللہ آتھم عیسائی
صبح کا وقت ہے گرمی کا موسم بے فکر لے اور آزاد طبع لوگ رات بھر کی گرمی کے مارے ہوئے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کی خنکی میں سو گئے ہیں اور خوشگوار نیند کے مزے لے رہے ہیں انگڑائی لی اور سر اٹھا کر دیکھا ابھی تو دن نہیں چڑھا کروٹ بدل کر پھرآنکھ بند کرلی۔
کارو باری اپنے اپنے کام کی طرف جا رہے ہیں۔ کارخانوں کے مزدور کارخانوں طالب علم بغلوں میں کتابیں دبائے مدرسہ میں جا رہے ہیں متولی سبیل کے خاکروبوں نے سڑکوں کو صاف کر دیا سقے چھڑکائو کر رہے ہیں نالیاں پانی سے دھوئی جا رہی ہیں امرت سر کے بازار میں