ہوگئے۔ تھوڑی دیر کے بعد عینیہ پھر آیا اور طلیحہ سے پھر یہی سوال کیا۔ طلیحہ نے کہا ہاں ابھی جبرائیل آئے تھے اور یہ وحی لے کر آئے ہیں: ’’ان لک رحی کرحاہ حدیثا لا تنساہ‘‘ تیرے لئے بھی خالد کی طرح ایک چکی ہوگی اور ایک بات پیش آئے گی جس کو تو کبھی نہ بھولے گا۔
عینیہ نے یہ سن کر کہا کہ بے شک اﷲ کو معلوم ہے کہ کوئی بات ایسی ضرور پیش آئے گی جس کو تو نہ بھولے گا اور اس کے بعد قوم سے مخاطب ہوکر یہ کہا: ’’انصرفوا یا بنی فزارۃ فانہ کذاب‘‘ عینیہ کا یہ لفظ سنتے ہی تمام لوگ بھاگ گئے اور میدان خالی ہوگیا اور کچھ لوگ ایمان لے آئے۔ طلیحہ نے اپنے لئے اور اپنی بیوی کے لئے پہلے ہی سے ایک گھوڑا تیار کر رکھا تھا۔ جب اس پر سوار ہوکر بھاگنے لگا تو لوگوں نے آکر اس کو گھیر لیا۔ طلیحہ نے جواب دیا: ’’من استطاع یفعل ہکذا وینجو بامراتہ فلیفعل‘‘ جو شخص ایسا کر سکتا ہو اور اپنی بیوی کو بچا سکتا ہو وہ ضرور ایسا کر گزرے گا۔
اس طرح طلیحہ بھاگ کر ملک شام چلاگیا اور حضرت عمرؓ کے زمانہ میں تائب ہوکر مدینہ منورہ حاضر ہوا اور حضرت عمرؓ کے دست مبارک پر بیعت کی اور جنگ قادسیہ میں کارنمایاں کئے۔ والسلام! (تاریخ طبری ج۲ ص۲۶۲، تاریخ ابن الاثیر ج۲ ص۲۰۹، تاریخ ابن خلدون ج۲ ص۴۰۶)
وحی طلیحہ کا ایک نمونہ
’’والحمام والیمان والصرد الصوام قد صمن قبلکم باعوام لیبلغن ملکنا العراق والشام‘‘ (تاریخ ابن الاثیر ج۲ ص۲۱۰)
۳…مسیلمہ کذاب
یہ شخص قبیلۂ بنی حنفیہ کا تھا۔ ۱۰ہجری میں شہر یمامہ میں اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور آنحضرتﷺ کی خدمت میں ایک خط بھیجا جس کی عبارت یہ ہے: ’’من مسیلمۃ رسول اﷲ الیٰ محمد رسول اﷲ سلام علیک فانی قد اشرکت فے الامر معک وان لنا نصف الارض ولقریش نصف الارض ولکن قریش قوم یعتدون‘‘ من جانب مسیلمہ رسول اﷲ بطرف محمد رسول اﷲ تم پر سلام ہو۔ تحقیق میں نبوت میں تمہارے ساتھ شریک کر دیا گیا ہوں۔ نصف زمین ہماری ہے اور نصف قریش کی۔ لیکن قریش ایک ظالم قوم ہے۔
مسیلمہ نے یہ خط دو آدمیوں کے ہاتھ حضور اقدسﷺ کی خدمت میں بھیجا۔