بحث میں لکھ کر حاضرین کو سنا کر دستخط کر کے مرزا صاحب کو دیں۔
مرزا صاحب… میں مجلس بحث میں جواب نہیں لکھ سکتا میں جواب لکھ رکھوں گا آپ لوگ ۱۰ بجے آئیں۔
حاجی محمد احمد صاحب… یہ معاہدہ کے خلاف ہے اس میں نقض عہد ہوتا ہے۔
مرزا صاحب… میری طبیعت اچھی نہیں آپ کل ۱۰ بجے آئیں۔
حاجی صاحب… افسوس آپ کی جملہ شروط منظور کی گئیں۔ مگر۔
مرزا صاحب… دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر مجھ کو دوران سر ہوگیا۔ اب زیادہ گفتگو کی طاقت نہیں رکھتا۔ جلسہ برخاست ہوا۔
باب۳۰ سی اُم
مولانا محمد بشیر شہسوانی سے مباحثہ
دیکھیں گے جنازہ کوئی روکے گا کیوں کر
اب باندھ کے ہم بھی تو یہاں سر سے کفن نکلے
برے پھنسے اب کوئی تدبیر مخلصی کی نہیں مختلف رقعوں میں شروط میں تغیر تبدل کیا عام جلسہ ہونے سے روکا چلتے ہوئے جو اب لکھنے سے انکار کیا۔ مگر بلا کی طرح اچھا لپٹا کوئی صاحب غیرت ہوتا تو نام نہ لیتا یہ حضرت پہلے موجود۔
اب مولوی محمد بشیر صاحب مردانہ میں بیٹھے ہیں اور مرزا صاحب زنان خانہ سے برآمد نہیں ہوتے۔
حاجی صاحب… مولوی صاحب اب جانے دو ان حضرت کی تو یہی عادت ہے۔ ھل من مبارز پکارتے ہیں۔ جب کوئی خم ٹھوک مقابلہ پر آیا۔ تو پیچھے کو ہٹ گئے۔
مولوی صاحب… حضرت بندہ تو ان کے دروازہ کی اینٹیں اکھاڑ کر اٹھے گا آپ جانتے ہیں کہ انہوں نے ہر ایک رقعہ میں دو شرطیں بڑھائیں مگر میں نے تسلیم کیا لفظ کو ایسا پکڑا کہ انکار ہی نہیں کیا۔
۱… حیات مسیح کا ثبوت ۔
۲… بحث مرزا کے مکان پر ۔
۳… جلسہ عام نہ ہو، دس آدمی ساتھ لائو
۴… شیخ بٹالوی اور مولوی عبد المجید ساتھ نہ آئیں۔
۵… پرچوں کی تعداد پانچ ہوں۔ ہر چند کہ ان سب شروط کا قبول کرنا نہ تو خاکسار پر لازم