نبی کے ظاہری اور باطنی کمالات کا آئینہ اور نمونہ ہو۔ خلافت راشدہ کا فیصلہ قیامت تک کے لئے حجت اور واجب العمل ہے۔ احادیث صحیحہ میں خلفاء راشدین کے اتباع کی تاکید آئی ہے۔ کتاب وسنت کے بعد خلافت راشدہ کا فیصلہ شرعی حجت ہے۔ جس سے عدول اور انحراف جائز نہیں۔
قیامت تک آنے والی اسلامی حکومتوں کے لئے خلافت راشدہ ہائیکورٹ اور آخری عدالت ہے۔ جس کی کوئی اپیل نہیں ہوسکتی۔ کسی اسلامی حکومت کی یہ مجال نہیں کہ وہ خلافت راشدہ کے فیصلہ پر کوئی نظرثانی کا تصور بھی کر سکے۔ خلافت راشدہ کے رشد اور صواب پر رسول اﷲﷺ کے دستخط ہوچکے ہیں۔ اﷲتعالیٰ اور اس کے رسول کے بعد خلفاء راشدین واجب الاطاعت ہیں اور اگر بفرض محال کوئی دیوانہ یہ خیال کرے کہ خلفاء راشدین کا فیصلہ حجت اور واجب الاطاعت نہیں تو پھر بتلائیے کہ دنیا میں خلفاء راشدین سے بڑھ کر کون ہے۔ جس کا فیصلہ حجت سمجھا جائے۔
اب ہم نہایت اختصار کے ساتھ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ خلافت راشدہ نے کس طرح مدعیان نبوت کا قلع قمع کیااور کس طرح صفحۂ ہستی سے ان کا نام ونشان مٹایا۔ ’’جزاہم اﷲ تعالیٰ عن الاسلام وسائر المسلمین خیرا کثیرا کثیرا اٰمین‘‘
۲…طلیحہ اسدی
اسود عنسی کی طرح طلیحہ اسدی نے بھی حضور پرنورﷺ کی زندگی میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ اسود کی طرح یہ بھی کاہن تھا کچھ قبیلے اس کے بھی تابع ہوگئے۔ آنحضرتﷺ نے اس کی سرکوبی کے لئے ضرار بن الاسودؓ کو صحابہ کی ایک جماعت ساتھ دے کر روانہ کیا۔ حضرت ضرارؓ نے خوب سرکوبی کی اور مرتدین کو اتنا مارا کہ طلیحہ کی جماعت کمزور پڑگئی۔ لیکن اتنے میں آنحضرتﷺ کی وفات کی خبر آگئی۔ حضرت ضرارؓ اپنے ساتھیوں کو ساتھ لے کر مدینہ آگئے۔ ان کے واپس آجانے کی وجہ سے طلیحہ کا فتنہ پھر زور پکڑ گیا۔ صدیق اکبرؓ نے خالدؓ بن ولید کی سرکردگی میں ایک لشکر اس کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا۔ خالدؓ بن ولید نے جاتے ہی میدان کارزار گرم کیا عینیہ بن حصن، طلیحہ کی طرف سے لڑ رہا تھا اور طلیحہ لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے ایک چادر اوڑھے ہوئے وحی کے انتظار میں ایک طرف بیٹھا تھا۔ جب مرتدین کے پیر میدان جنگ سے اکھڑنے لگے تو عینیہ بن حصن لوگوں کو لڑتا چھوڑ کر طلیحہ کے پاس آیا اور سوال کیا کہ کیا میرے بعد تیرے پاس جبرائیل امین کوئی وحی لے کر آئے ہیں۔ طلیحہ نے کہا نہیں کوئی وحی نہیں آئی۔ عینیہ لوٹ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد پھر آیا اور سوال کیا کہ کیا اس اثناء میں جبرائیل کب تک آئیں گے۔ ہم تو تباہ