سفک، ظلم، نہب خلاف مرضی الٰہی ہے۔ پس مکاروں اور کذابوں کا الہام بھی خدا کی طرف سے نہیں ہوتا۔ یہ تو خدا پر تہمت ہوتی ہے اور مفتری علی اللہ سخت عتاب کا مستوجب ہوتا ہے۔ جب براہین احمدیہ لکھی۔ تو بیان کیا کہ میرے بطن سے الہام کی سرسراہٹ ہوتی ہے۔ پھر جھٹ سے بارہ ہزار روپیہ جائیداد کا انعام اس شخص کے لیے مشتہر کیا۔ جو براہین کا جواب لکھ دے۔ آریوں نے تکذیب براہین لکھ کر شائع کردی۔ انعام کا خبط تو آپ کی گھٹی میں نیچرل طور پر پڑا ہے۔ ہر معاملہ میں تھیلیاں اور ہمیانیاں اگلتے رہتے ہیں۔ مگر آج تک کسی کو پھوٹی کوڑی بھی دی ہو۔ تو خدا کرے۔ قسمت ہی پھوٹے اور تو کیا کہیں۔ فی الحقیقت چال تو بہت خاصی ہے۔ حمقائمیں غل مچ جاتا ہے کہ ایک شخص اپنی ساری جائیداد تکیے پر دھرے دیتا ہے بالکل ولی اللہ اور خلوص اور ملہمیت کا پتلا ہے۔ یہ خبر نہیں کہ:
زر زر کشد درجہاں گنج گنج
مرزا جی گویا اپنی نبوت کو روپیہ پیسہ کا لالچ دے کر فروخت کر رہے ہیں۔ اگر کسی نے انعامی مجوزہ رقم دیدی۔ تو ثبوت گویا فروخت ہوگئی۔ اور مرزا جی اس کے حلقہ بگوش بن گئے۔ اور اگر کوئی گاہک نہ ہوا۔ تو آپ فرمائشی بنی ہی ہیں۔ گویا مرزا جی یہ ثابت کر رہے ہیں۔ کہ میں نبی نہیں۔ بلکہ ایک متمول سیٹھ ساہوں، کار کوٹھی دار ہوں۔ میرے پاس لاکھوں روپیہ جمع ہیں۔ کیا کسی نبی نے اپنی نبوت کا دارو مدار روپیہ پیسہ پر رکھا ہے۔ اور اس طرح اپنی نبوت اور اپنا اعجاز فروخت کیا ہے۔ جب آتھم کی پیشگوئی میں مرزا جی کے منہ پر قدرتی تھپڑ لگا۔ یعنی در میعاد مقرر میں فوت نہ ہوا۔ تو آپ نے جھٹ اشتہار دیا۔ کہ آتھم حلف سے کہہ دے۔ کہ اس پر پیشگوئی کا خوف طاری نہیں ہوا تھا۔ اور چار ہزار لے جائے۔ مرزا جی کو خوب معلوم تھا کہ انعام کی یہ شرط ہرگز پوری نہ ہوسکے گی۔ کیونکہ اس کے یہ معنے تھے۔ کہ آتھم جو مسیحی ہے۔ مرزائی بن جائے۔ اس عیاری پر مرزا جی پھولے نہیں سماتے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ضمیمہ شحنہ ہند مطبوعہ یکم جون ۱۹۰۳ء
باب۴۹ چہل و نہم
اُگ رہا ہے درو دیوار سے سبزہ غالب
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے
گورداسپور کی ضلع کی کچہری کے احاطہ میں آج معمول سے زیادہ رونق ہے۔ ایک پر دس اور دس پر سو سو آدمی گرتا ہے۔ جدھر دیکھو۔ ٹرکی ٹوپی کے پھندنے اڑ رہے ہیں۔ کوٹ پتلون