تنفر تھے کہ زبان بندی ضرور سمجھی گئی۔ مگر افسوس اس نبی پر جس کا یہ کلام ہے۔ جس کی زبان سے نکلا۔ جس نے کتابوں میں درج کیا۔ کیا اس کے گندے متعفن کلام کے خلاف ہم اتنا بھی کہہ دیں کہ جناب ملہم کی زبان سے ایسے الفاظ ان کے ملہم کی نشان دہی کرتے ہیں۔ یعنی جناب ملہم کی زبان سے ایسے الفاظ ان کے ملہم کی نشان دہی کرتے ہیں۔ یعنی جناب شیطان ہی ایسے الہام سے نواز سکتا ہے تو یہ مرزائیوں کو ناگوار گزرے۔ مرزاقادیانی کی گالیاں کہاں تک لکھیں۔ چند مثالیں اور پیش کر کے اس بات کو ختم کرتا ہوں۔
مرزاقادیانی مولوی عبدالحق صاحب غزنوی اور ان کی جماعت سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: ’’نہ معلوم کہ یہ جاہل اور وحشی فرقہ اب تک کیوں شرم اور حیا سے کام نہیں لیتا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۸، خزائن ج۱۱ ص۳۴۲)
اگر ہم اس کے جواب میں عرض کریں کہ مرزائی فرقہ کیوں شرم وحیا سے کام نہیں لیتا۔ ایسے دجال وکذاب کو نبی مانتا ہے۔ جس کی ایک پیشین گوئی بھی پوری نہ ہوئی۔ بڑھاپے میں محمدی بیگم کے نکاح کی حسرت لئے بعارضۂ ہیضہ وبائی لاہور میں آنجہانی ہوگیا تو شاید مرزائیوں کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ یہ طرز تحریر اور گفتگو تمہارے مسیح موعود کا سکھلایا ہوا ہے۔ بلکہ ایسی عبارتیں پڑھ کر فخر یہ کہا کریں کہ یہ بھی حضرت کا نشان ہے کہ لوگ وہ طریق اختیار کر رہے ہیں۔ جو حضرت کا تھا۔
عام علماء کے متعلق گالیاں
’’اے بدذات فرقہ مولویاں‘‘ (انجام آتھم حاشیہ ص۲۱، خزائن ج۱۱ ص۲۱)
’’بعض خبیث طبع مولوی جو یہودیت کا خمیر اپنے اندر رکھتے ہیں۔ دنیا میں سب جاندروں سے زیادہ پلید خنزیر ہے۔ مگر خنزیر سے زیادہ پلید وہ لوگ ہیں۔ اے مردار خور مولویو اور گندی روحو۔‘‘ (ضمیمہ ص۲۱، خزائن ج۱۱ ص۳۰۵)
یہ ہے مرزاقادیانی کی تہذیب جو ان کی کتابوں سے قارئین کے سامنے پیش کی گئی ہے۔ یہ نمونہ کے طور پر چند بدزبانیوں کی مثالیں پیش کی ہیں۔ ورنہ مرزاقادیانی نے اپنی تصنیفات کو اپنی گندی بدبودار گالیوں سے اس قدر بھر رکھا ہے کہ ان سے اچھا خاصا طومار بن سکتا ہے۔
مرزاقادیانی کا مراق وسلسل بول
مرزاقادیانی کے جس قدر دعاوی ہیں یا جس قدر بھی تقریریں اور کتابیں ہیں تضاد کا شکار ہیں۔ اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ مرزاقادیانی کا حافظہ نہایت کمزور تھا۔ نیز مراق بھی شامل