باب۵ پنجم
پارسائی کا پکھنڈ
اساڑھ اور ساون گزر کر بھادوں کے بھی کچھ دن اوپر گئے۔ برسات کے عین شباب کے دن میں مگر ابرو بار ان کا تو کیا کہیے، پر وا ہوا بھی نہیں چلتی تالاب اور چشموں کے پانی کیا کنوئوں کے سونت بھی خشک ہو گئے ہیں۔ چشم عشاق فراق دیدہ رنج مہاجرت کشیدہ سے بھی اگر کوئی اشک گرتا ہے۔ تو گوہر کی طرح خشک ہوتا ہے۔ تری کا نام نہیں پایا جاتا، گرمی کا وہ زور کہ الامان و الحفیظ آسمان تانبے کا لگتا ہے۔ زمین لوہے کی طرح تپتی ہے۔ جانوروں کو پانی پینے کو نہیں ملتا۔ زبان نکالے پڑے منہ کھلا ہوا ہے۔ اور آنکھیں بند دم نکل گیا۔ قحط کا یہ حال کہ آدمی کو آدمی کھاتا ہے۔ جنگل یا پہاڑوں میں سبزی کا نمود نہیں۔ جدھر دیکھو خاک اڑتی ہے پچھواہوا نے درخت سکھا دیے ہیں۔
نہ بر کوہ سبزی نہ درباغ شخ
ملخ بوستان خورد مردم ملخ
کا مصداق ہے۔ دریائے ستلج سے روپڑ کے مقام پر ایک نہر کاٹی جا رہی ہے۔ ہزار ہا مزدور ٹھیکیداروں کی طرف سے نہر کی کھدوائی پر لگے ہوئے ہیں۔ اور تین جیل خانے جس میں دو ڈھائی ہزار قیدی رہتا ہے۔ خاص اس غرض سے اس جگہ قائم کئے گئے ہیں۔ قیدی نہر پر کھدائی کا کام کرتے ہیں۔ اور نہر کا ایک بڑا محکمہ یہاں پر موجود ہے۔ ایک یورپین صاحب اسسٹنٹ کمشنر بھی یہاں پر رہتا ہے۔ روپڑ کی کیا ایک مختصر کی چھائونی کا نمونہ (قصبہ روپڑ جو چند دنوں پیشتر ایک گائوں تھا) بن گیا ہے۔
روپڑ کے نیچے آبادی کے قریب ریلوں کے جیل خانہ سے اس طرف ایک ندی (جو اب خشک پڑی ہے) میں ریت کے ٹیلہ کے اوپر ایک جوان سانولا رنگ میانہ قد اوسط اندام پچیس یا تیس برس کا سن سال بیٹھا ہے۔ دھوپ کے تمازت اور ریت کی طپش میں قدم نہیں رکھا جاتا۔ مگر اس شخص کے سر پر نہ کوئی سایہ ہے، نہ نیچے بستر ہے، یکہ و تنہا، نہ کوئی آس نہ پاس، نہ کھانے کا سامان، نہ پانی کا برتن اس گرمی اور طپش میں بھوک نہیں تو پیاس کا اندفاع تو ضروری ہے۔ تین دن اور رات اسی ہیئت سے گذرے چوتھے دن ایک خیمہ ایستادہ ہے۔ اور پانی کا چھڑکائو خیمہ کے اندر