باب۱۰ دہ
ہر آنکہ زاو بنا چار بایدش نوشید زجام دہرمئے کل من علیہا فان
ایک پختہ اینٹوں کی عمارت دو منزلہ کا مکان ہے۔ جو اس جگہ کی آبادی کی لحاظ سے خیال کیاجاتا ہے۔ کہ مالک اس مکان کا اس گاؤں یا قصبہ کا رئیس ہے۔ زنان خانہ کے قریب ایک مردانہ نشست کا مکان بنا ہوا ہے۔ آگے ایک وسیع دالان ہے اس کے پیچھے کو ٹھا ہے۔ کوٹھے کے دروازہ کے آگے والان کے وسط میں ایک چاپائی بچھی ہوئی ہے۔ چاپائی کے قریب ایک لکڑی کی چوکی جس کے بیچ میں سے ایک تختہ اور کٹا ہوا ہے۔ اور اس کے نیچے ایک برتن رکھا ہوا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چوکی واسطے رفع حاجت ضروری کے رکھی ہوئی ہے۔ چارپائی پر ایک شخص سفید ریش، ضعیف العمر، سفید چادر اوڑھے ہوئے پڑا ہے۔ سرہانے ایک خادم پنکھا ہلا رہا ہے۔ اور چند آدمی دوسری چارپائی پر پاس بیٹھے ہیں۔ ایک شخص اجنبی باہر سے آ کر اندر داخل ہو کر اسلام علیکم۔
تیمار دار… جو پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ و علیکم السلام غلام احمد تم آ گئے یہ سن کر بیمار نے منہ پر سے چادر اٹھائی آنے والے کی طرف دیکھ کر۔
بیمار… غلام احمد بیٹا آگئے خیرو عافیت، خط پہنچ گیا تھا۔
نو وارد… نہیں خط تو نہیں پہنچا۔ میں نے آپ کو خواب میں بیمار دیکھا تھا۔
بیمار… ہاں مجھ کو پیچس نے ہلاک کر دیا۔ اب کل سے کچھ افاقہ ہے افسوس دنیا بہت ناپائیدار ہے۔ عمر بگذشت و نماند ست جزا یامی چند کہ دریا دکسے صبح کنم و شامی چند سخت حسرت کا مقام ہے جس قدر میں نے اس پلید دنیا کے لیے سعی کی ہے۔ اگر میں وہ سعی دین کے لیے کرتا تو شاید آج قطب وقت یاغوث ہوتا۔ دنیا کی بے ہودہ خرچوں کے لیے میں نے عمر ناحق ضائع کی۔ اب ہمارا وقت قریب ہے۔ اب جو دم ہے دم واسپین سے (اپنی نبض پر ہاتھ رکھ کر) ضعف بہت ہو گیا ہے۔
نووارد… (بیمار یعنی اپنے والد کا کا ہاتھ پکڑ کر اور نبض دیکھ کر) ہاں ضعف تو ہونا چاہئے تھا۔ یہ مرض جوان آدمی کو ضعیف بنادیتا ہے اور آپ کا تو مقتضا نہیں ہے۔ مگر اب افاقہ ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ صحت ہوتے ہی پھر طاقت عود کر آئے گی۔
باپ یعنی بیمار۔ ایک آہ کھینچ کر ؎
شب وصال جو قسمت میں ہے تو ہووے گی
دعا کرو شب فرقت کہیں سحر ہووے