دریائے چناب کے کسی اور طرف بھاگنے کا راستہ نہ تھا۔ جہاں چھ سو آدمی ڈوب مرے۔‘‘
(سیرۃ مسیح موعود ص۵)
لو مرزاقادیانی کے خاندان کی خدمات یہ مولراج صاحب ملتانی ایک ظالم حاکم تھے۔ جن کے خلاف مسلمانوں نے اعلان جہاد کر دیا تھا اور ان کی سرکوبی کے لئے مرزاقادیانی کا خاندان حرکت میں آیا۔ مگر یہ حرکت سکھوں کے جھنڈے تلے ہوئی ہے۔ یہ مرزاقادیانی کے خاندان کی نمک حلالی ہے۔ مرزاقادیانی کا خاندان کبھی اسلام کے لئے نہیں لڑا۔ البتہ جب بھی کہیں مسلمان نظر آئے۔ ان کے خلاف ضرور کاروائی کی۔ شاید مرزاقادیانی کے پورے خاندان کا ہی یہ مذہب تھا کہ دین کے لئے غیروں سے لڑنا حرام ہے۔ البتہ مسلمانوں کو سکھوں اور انگریزوں کی خاطر قتل کرنا حقیقی اور صحیح جہاد ہے۔
یہ قربانیاں تو مرزاقادیانی کے خاندان نے سکھوں کے لئے پیش کی ہیں۔ جو عام طور پر لوگوں سے اوجھل ہیں۔ رہا انگریزوں کے ساتھ وہ تو اظہر من الشمس ہے۔ کیونکہ سکھوں سے تو صرف ان کے دسترخوان سے بچے ہوئے چند ٹکڑے اور ہڈیاں ملی تھیں۔ مگر سرکار انگریز کے عہد میں تو نبوت عطاء ہوئی ہے۔ پھر کیوں نہ شکر ادا کریں۔ یہ الگ بات ہے کہ عیسائی دجال ہیں۔ بقول مرزاقادیانی، مگر پناہ بھی مسیح کو زیرسایہ عاطف دجال ہی ملی۔ بہت خوب! مرحباً مسیحا دجال کا نمک خوار بن گیا۔ خوب کسر صلیب اور قتل دجال ہوا۔
مرزاقادیانی کا خاندان اور ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی
مرزاقادیانی اپنی آبائی ریاست کے زوال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’غرض ہماری پرانی ریاست خاک میں مل کر آخر پانچ گاؤں ہاتھ میں رہ گئے۔ پھر بھی بلحاظ پرانے خاندان کے میرے والد صاحب مرزاغلام مرتضیٰ اس نوح میں ایک مشہور رئیس تھے۔ گورنر جنرل کے دربار میں بزمرہ کرسی نشین رئیسوں کے ہمیشہ بلائے جاتے تھے۔
۱۸۵۷ء میں انہوں نے سرکار انگریز کی خدمت میں پچاس گھوڑے معہ پچاس سوروں کے اپنی گرہ سے خرید کر دئیے تھے اور آئندہ گورنمنٹ کو اس قسم کی مدد کا عند الضرورت وعدہ بھی دیا اور سرکار انگریزی کے حکام وقت سے بجالائے خدمات عمدہ عمدہ… چٹھیات خوشنودی مزاج ان کو ملی تھیں۔ غرض وہ حکام کی نظر میں بہت ہردل عزیز تھے۔ بسا اوقات ان کی دلجوئی کے لئے حکام وقت ڈپٹی کمشنر ان کے مکان پر آکر ان کی ملاقات کرتے تھے۔‘‘
(کتاب البریہ حاشیہ ص۱۵۸، خزائن ج۱۳ ص۱۷۶،۱۷۷)