ہیں۔ آپﷺ کے الفاظ یہ ہیں کہ قیامت قائم نہ ہوگی۔ جب تک کہ تیس کذاب برآمد نہ ہوں۔ ان میں مسیلمہ اور عنسی اور مختار ہوں گے۔
سب سے پہلا مدعی نبوت اور اس کا قتل
سب سے پہلا مدعی نبوت اسود عنسی ہے جو بڑا شعبدہ باز تھا اور کہانت میں اپنی نظیر نہیں رکھتا تھا۔ لوگ اس کے شعبدوں کو دیکھ کر مانوس ہوگئے اور اس کے پیچھے ہولئے اور قبیلۂ نجران اور مذجج نے اس کی دعوت کو قبول کیا اور ان کے علاوہ یمن کے اور بھی قبائل اس کے ساتھ شامل ہوگئے۔
آنحضرتﷺ نے مسلمانان یمن کے پاس حکم بھیجا کہ جس طرح ممکن ہو اسود کا فتنہ ختم کیا جائے۔ امام ابن جریر طبری۱۱ہجری کے واقعات میں لکھتے ہیں: ’’عن جشیش بن الدیلمی قال قدم علینا وبربن یحنس بکتاب النبیﷺ یامر فیہ بالقیام علے ددیننا والنہوض فی الحرب العمل فی الاسودا ما غیلۃ اومصادمۃ‘‘
(تاریخ طبری ج۲ ص۲۴۸)
جشیش راوی ہیں کہ وبربن یحنس نبی اکرمﷺ کا والا نامہ ہمارے نام لے کر آئے۔ جس میں ہم کو یہ حکم تھا کہ دین اسلام پر قائم رہیں اور اسود کے مقابلہ اور مقاتلہ کے لئے تیار ہو جائیں اور جس طرح ممکن ہو اسود کا کام تمام کریں۔ خواہ کھلم کھلا قتل کریں یا خفیہ طور پر یا کسی اور تدبیر سے۔
اور (تاریخ ابن الایثر ج۲ ص۲۰۲) پر ہے: ’’فتزوج معاذ الیٰ لسکون فعطفوا علیہ وجاء الیہم والیٰ من بالیمن من المسلمین کتاب النبیﷺ یأمرہم بقتال الاسود فقام معاذ فی ذلک وقویت نفوس المسلمین وکان الذی قدم بکتاب النبیﷺ وبربن یحنس الازدی قال جشیش الدیلمی فجاء تنا کتب النبیﷺ یأمرنا بقتالہ اما مصادمۃ اوغیلۃ الیٰ آخرہ‘‘
(تاریخ ابن الایثر ج۲ ص۲۰۲) ’’ذکر اخبار االسود العنسی بالیمن‘‘
حضرت معاذؓ نے نکاح کیا اور تمام مسلمان ان کے گرد جمع ہوگئے اور ان کے پاس اور مسلمانان یمن کے پاس آنحضرتﷺ کا خط موصول ہوا۔ جس میں اسود کے ساتھ قتال کا حکم تھا۔ حضرت معاذؓ اس بارے میں کھڑے ہوئے اور مسلمانوں کے قلوب کو تقویت حاصل ہوئی۔ جو شخص